Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، تنگ دل انسان کو اپنا امین نہ بناؤ۔ نھج البلاغۃ حکمت211
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

جہاد ایک عظیم مقدس ہدف

آية الله سید علی خامنه ای

جہاد یعنی عظیم مقدس ہدف کے لئے جد و جہد۔ اس کے مخصوص میدان ہیں۔ ایک میدان مسلح افواج کے شعبوں میں شمولیت ہے۔ اس کا سیاسی میدان بھی ہے، علمی میدان بھی ہے اور اخلاقی میدان بھی۔ جہاد کی صداقت و حقانیت کا معیار یہ ہے کہ یہ عمل جب انجام پائے تو خاص سمت اور رخ کا حامل ہو اور سامنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اسی کو جد و جہد کہتے ہیں اور جہاد اسی کا نام ہے۔ اگر اس میں الہی ہدف اور پہلو ملحوظ ہوگا تو اس میں تقدس بھی پیدا ہو جائے گا۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں کو حقیقی جہاد کی دعوت دیتا ہوں۔ جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس جہاد میں حریف سامراجی عناصر ہیں، دشمن وہ افراد ہیں جو ایران، اسلام، شناخت و تشخص، قومیت، اسلام نوازی اور اسلامی صفات و اوصاف سے عناد رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے سلسلے میں سختگیر ہونا چاہئے۔ یہ کفار کون لوگ ہیں؟ ہر اس شخص کے ساتھ تو سختگیری نہیں کی جا سکتی جسے اسلام سے نسبت نہیں۔ جو شخص آپ سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کرتا، آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہیں ہے، آپ کی قوم اور ملت کی نابودی کے در پے نہیں ہے، وہ خواہ کسی اور دین کا ماننے والا ہی کیوں نہ ہو اس سے آپ اچھا سلوک کیجئے، نیک برتاؤ کیجئے۔ جس کافر سے سختی سے پیش آنے کا حکم ہے وہ یہ نہیں ہے۔ سختگیری ایسے افراد کے ساتھ کرنا چاہئے جو آپ کی شناخت و تشخص، اسلام، قومیت، ملک، ارضی سالمیت، خود مختاری، وقار، عزو شان، عزت و آبرو، آداب و روایات اور ثقافت و اقدار کے دشمن ہوں۔ یہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں عام ہونا چاہئے۔ درگذشت اور رعایت مسلمانوں کے ما بین رائج ہونا چاہئے۔ اسلامی ثقافت کا ایک نمایاں نکتہ جس کا نمایاں مصداق صدر اسلام میں کچھ زیادہ اور بعد کی تاریخ میں بہت کم نظر آتا ہے، جہاد و عسکریت کی ثقافت ہے۔ جہاد کے معنی صرف میدان کارزار میں اتر جانا ہی نہیں ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہر کوشش جہاد سے عبارت ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض افراد کوئی کام انجام دیں اور اس کے لئے جد و جہد بھی کریں لیکن اس پر جہاد کا لفظ کا اطلاق نہ ہو۔ اس لئے کہ جہاد کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں انجام دیا جائے۔ کبھی تو یہ مقابلہ میدان جنگ میں مسلحانہ طور پر ہوتا ہے، کبھی یہ مقابلہ میدان سیاست میں انجام پاتا ہے جو "سیاسی جہاد" کہلاتا ہے، کبھی ثقافتی امور کے سلسلے میں انجام پاتا ہے جو "ثقافتی جہاد" کہا جاتا ہے، کبھی تعمیراتی شعبے میں انجام پاتا ہے اور "تعمیراتی جہاد" کہلاتا ہے۔ اسی طرح جہاد دوسرے میدانوں میں دوسرے ناموں سے بھی انجام دیا جاتا ہے۔ بنابریں معیار میدان جنگ اور شمشیر زنی نہیں ہے بلکہ معیار مقابلہ ہے۔ مقابلے میں بھی دو لازمی شرطیں ہیں ایک تو جد و جہد کا ہونا اور دوسرے "دشمن" کے مقابلے میں انجام پانا۔ جہاد میں دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاد میں بہانے بازی اور (عبث) قتل و غارتگری کی گنجائش نہیں، جہاد میں یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی مسلمان نہیں اسے تہہ تیغ کر دیا جائے، جو بھی دین اسلام قبول نہ کرے اس کے ساتھ سختگیر رویہ رکھا جائے۔ سختگیری ایسے لوگوں کے ساتھ کی جانی چاہئے جو مسلم اقوام کی شناخت و تشخص، اسلام پسندی، خود مختاری، ناموس، ثقافت، ارضی سالمیت اور اقدار سے بر سر پیکار ہوں۔ اس سلسلے میں جہاد، حکم الہی کا درجہ رکھتا ہے جس کی بدولت قوموں کو سربلندی حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی انقلاب نے ہماری قوم کو جہاد کی ثقافت عطا کی۔ جہاد کی ثقافت ہر شعبے اور ہر موقع پر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اوائل انقلاب سے ہی زراعت اور جانوروں کی پروش سے متعلق بنیادی کاموں میں جہادی ثقافت شامل ہو گئی۔ کیونکہ انقلاب نے ایسی تنظیمیں پیدا کر دی تھیں جن کی ماہیت انقلابی جوش وجذبے اور جہاد و سرعت عمل سے عبارت تھی۔