Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، سب سے بڑا بابصیرت انسان وہ ہے جو اپنے عیبوں کو دیکھے اور اپنے گناہوں کا قلع قمع کرے۔ غررالحکم حدیث3690
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

قیام حسین - انسانی افتخار کی عظیم تحریک

آية الله سید علی خامنه ای

امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایک عظیم انقلاب کی شکل میں ہویدا ہے، عزت و افتخار کا مظہر ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کون کھڑا تھا۔ وہ ظالم و بدعنوان حکومت تھی جو معاشرے کو ظلم کی چکی میں پیس رہی تھی۔ وہ اپنے زیر تسلط سماج پر ظلم و جور روا رکھتی تھی اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم و غرور و تکبر کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ یہ اس حکومت کی واضح خصوصیت تھی۔ اس کے نزدیک جس چیز کی بالکل اہمیت نہيں تھی وہ معنویت اور انسانوں کے حقوق تھے۔ اسلامی حکومت کو، اسلام سے قبل اور مختلف زمانوں میں موجود ظالم و جابر حکومت میں، بدل دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں کہ جب اسلامی نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومت کا نصب العین ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو دین اسلام کو مطلوب ہے تو حکومت کی نوعیت اور حاکم کا رویہ خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ اس زمانے کے بزرگوں کے بقول امامت کو سلطنت میں بدل دیا گیا تھا۔ امامت سے مراد ہے دینی و دنیوی امور میں معاشرے کی قافلہ سالاری۔ ایک ایسے قافلے کی رہنمائی جس میں شامل تمام مسافر ایک ہی سمت میں ایک اعلی مقصد کی طرف گامزن ہوں اور امام، لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اگر کوئی گم ہو جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راستے پر واپس لائے ۔ اگر کوئی تھک جائے تو اسے آگے چلنے کے لئے ہمت و حوصلہ دے۔ اگر کسی کا پیر زخمی ہو جائے تو اس کے پیر پر پٹی باندھے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں امام کہا جاتا ہے۔ سلطنت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موروثی بادشاہت، سلطنت کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے سلطان ہیں جنہيں سلطان نہيں کہا جاتا لیکن ان کا باطن، دیگر انسانوں پر تسلط و ظلم و جور کے جذبے سے بھرا ہوتا ہے۔ کوئی بھی، چاہے جس دور میں ہو، اس کا جو بھی نام ہو، جب کسی ایک قوم یا کئ اقوام پر ظلم کرتا ہے تو اس کی حکومت کو، سلطنت کہا جاتا ہے۔ تمام زمانوں میں استعماری حکومتیں رہی ہيں اور آج اس کا مظہر امریکا ہے۔ یعنی کسی حکومت کا صدر، بڑی آسانی سے اور بغیر کسی اخلافی علمی و قانونی جواز کے، اپنے اور اپنی حامی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کو، کروڑوں انسانوں کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اقوام عالم کے لئے احکامات صادر کرتا ہے تو اس کی حکومت کو استعمار کہتے ہیں۔ چاہے اس کے سربراہ کو سلطان کہا جائے یا نہ ! امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں، اسلامی امامت کو ایسا ہی بنا دیا گیا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اسی صورت حال کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی جد و جہد کا مقصد حقائق کو واضح کرنا، ذہنوں کو روشن کرنا، سماج کی ہدایت اور یزید اور اس سے پہلے کے دور میں حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنا تھا۔ بس یزید کے زمانے میں جو کچھ ہوا یہ تھا کہ ظلم و جور و گمراہی کے اس رہنما کو یہ توقع تھی کہ ہادی امام اس کی حکومت کی تائید کر دیں گے۔ بیعت کے یہی معنی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور اس کی حکومت کی کجروی و گمراہی کو واضح کرنے کے بجائے اس ظالم حکومت کی تائید کریں! امام حسین علیہ السلام کا قیام یہیں سے شروع ہوا۔ اگر یزیدی حکومت کی جانب سے اس قسم کا احمقانہ و غلط مطالبہ نہ کیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام دور اس انداز سے پرچم ہدایت اٹھاتے جس انداز سے بعد کے ادوار میں ائمہ معصومین نے بلند کئے۔ اسی انداز میں لوگوں کی ہدایت کرتے اور حقائق بیان فرماتے ۔ لیکن یزيد نے جہالت و تکبر اور انسانیت و انسانی خصائص سے دوری کی وجہ سے جسارت کی اور یہ توقع کر بیٹھا کہ امام حسین علیہ السلام ، اسلامی امامت کو سلطنت میں تبدیل کرنے کے اس کے سیاہ کارنامے کی تائید کریں یعنی بیعت کریں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «مثلى لا يبايع مثله»؛ حسین یہ کام نہيں کر سکتے۔ امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ کےلئے حق کے علمبردار کی شکل میں باقی رہنا تھا۔ پرچم حق، باطل کی صفوں میں نہیں رہ سکتا اور نہ ہی باطل کی عار کو قبول کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا «هيهات منّا الذّلّة». امام حسین علیہ السلام کی تحریک ، عزت و وقار کی تحریک تھی ۔ یعنی حق کی آبرو، دین کی آبرو، امامت کی آبرو اور اس راہ کی آبرو بچانے کی تحریک تھی جس کی جانب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راہنمائی کی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اسی آبرو کے مظہر تھے اور چونکہ جد و جہد کی اس لئے قابل فخر و مباہات بھی تھے۔ اسے حسینی عزت و افتخار کہتے ہيں۔ اگر کبھی کوئی شخص اپنی کوئی بات کہے اور اپنا عندیہ بیان کر دے لیکن اپنی بات پر ڈٹا نہ رہے بلکہ پیچھے ہٹ جائے تو اس صورت میں اس پر فخر نہيں کیا جا سکتا ۔ فخر اس شخص ، قوم و جماعت کو کرنا چاہئے جو اپنی بات پر ڈٹی رہے اور جو پرچم اٹھائے اسے طوفانوں کی زد سے بچائے رکھے۔