Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، اپنی زبان کی تیزی اس پر استعمال نہ کر جس نے تجھے بولنا سکھایا اور اپنےکلام کی بلاغت اس کے خلاف استعمال نہ کر جس نے تجھے سیدھی راہ دکھائی ہے۔ نھج البلاغۃ حکمت411
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

پیغمبر اسلامؐ ایک ہمہ گیر اور جامع الصفات شخصیت

آية الله سید علی خامنه ای

(پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ نا ممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہوکر معرفت کے گوہر پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن انکی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔یہ انکی شخصیت تھی اور دوسری طرف انکا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرےگا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔ البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اسکا علم وادراک روزبروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ مسلمہ ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ وجاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔ نبی اکرم(ص)کے پیغام توحید کی حقانیت،اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لئے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبر(ص)کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود کو قرار دیا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرت (ص) کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید و تبصرے کرنا شروع کر دیا ہے۔ قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبر(ص)کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گذشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہے اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبراسلام(ص)کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گذرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپ(ص)کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئي ہے۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت کے عظوم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آرہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔