Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں: بخل اور رزق کے بارے میں خدا سے بدگمانی۔ بحارالانوار کتاب الروضۃ باب7 حدیث8

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

یزید کی بیعت نہ کرنا

سو ا ل ۱۹:اما م حسینؑ کس دلیل و منطق کی بنیاد پر یز ید کی بیعت پر حتیٰ کہ مصلحت کی خاطر بھی راضی نہ ہو ئے؟
جواب : پہلے یہ دیکھا جا ئے کہ ہر تا ریخی فیصلہ سخت بحرا نی حالا ت میں خا ص علل و اسباب
(۱) مقتل خوا ر زمی ،ج۲ ، ص ۵۸ ،تذکرہ الخواص ،ص ۳۶۱
جواب : پہلے یہ دیکھا جا ئے کہ ہر تا ریخی فیصلہ سخت بحرا نی حالا ت میں خا ص علل و اسباب کے پیش نظر کیا جا تا ہے کہ جہاں طرفین پہلے سے ایسی صور تحا ل کا اندا ز ہ رکھتے ہوں سنت نبوی ؐ اور عدالت علو ی سے انحرا ف کا زاویہ پہلے سے ہی شر وع ہو چکا تھا، لیکن ظا ہر ی فریب و دھوکہ دہی کے سا تھ معاملا ت آگے بڑ ھ رہے تھے ، اہل بیتؑ اور پا ک طینت صحا بہ جیسے سلمان ، ابوذر و عما ر وغیر ہ ہر منا سب موقع پر لوگوں پرحق کا اظہا ر کر کے انہیں آگا ہ کرتے رہتے تھے ، لیکن تا ریخ ایک ایسے موڑپہنچتی ہے کہ اب فریقین سمجھتے ہیں کہ آخر ی بات کر کے معاملہ نمٹا دیا جا ئے ،معاویہ کی مو ت اور یز ید کی تخت نشینی کے ساتھ وہ مو قعہ آن پہنچا ، ایک طرف یزید نے ہرچیز کا انکا ر کر تے ہو ئے کہا :
لعبت ہا شم بالملک فلا
خبر جا ء ولا حوالہ سابق نزل(۱)
’’بنی ہا شم نے حکومت کا ڈھو نگ رچا یا ور نہ آسما ن سے نہ کوئی خبر آئی نہ وحی اتری ‘‘
یزیدنے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ دھمکی یا قتل و کشتا ر کے ذریعے کسی کو اپنے خلا ف کوئی فعالیت نہیں کرنے دے گا، اس طرح وہ مر گ معا ویہ کی خبر عام ہونے سے پہلے پہلے اما م حسینؑ ، عبدا للہ بن زبیر اور عبدا للہ بن عمر سے بیعت لے لینا چاہتا تھا اوراس کے لئے وہ قتل کی دھمکی تک چلا گیا ، ایسی صورتحال میں اما م حسین علیہ السلام کو بھی اپنا قطعی فیصلہ کر نا تھا، آپ کی مہارت یہ تھی کہ کو فیوں کی دعو ت کے جوا ب میں اپنی حقا نیت کاانتہا ئی عقلمند ی سے اظہا ر کریں اس طرح کہ سب پر اتما م حجت ہو جائے اورآپ نے اپنی تحریک و قیام میں مظلومیت کاعنصربھی شامل کیا تا کہ رہتی دنیا تک ظالموں کا چہر ہ قا بل نفر ت رہے اور اس نفرت میں نہ کبھی کمی آئے اور نہ ختم ہو نے پا ئے لہٰذا یہ رنگ صرف شہادت واسا رت ہی سے بقا ودوا م پا سکا ۔
(۲) تا ریخی یعقوبی اور مقتل خوارزمی میں ہے کہ یزید نے صریحاً ولید کو لکھا تھا اگر حسین اور ابن زبیر بیعت نہ کریں تو انہیں قتل کردو اور ان کے سر میرے پاس بھیجو ( تا ریخ یعقوبی، ج ۲ ص ۱۵ مقتل خوارزمی ،ج۱ص ۱۸۰)
اما م حسینؑ جنہوں نے بیت وحی میں تر بیت پائی اور خو د تر جما ن وحی تھے، سمجھتے تھے کہ امت اسلام کی امامت و رہبر یت کے لئے ایسی صلاحیتیں در کار ہیں جو یزید اور یزید جیسوں میں نہیں پا ئی جا تیں آپ فر ما تے ہیں :
ماا لا مام الا العا مل بالکتاب والقا ئم بالقسط
بدین الحق والحا بس نفسہ علی ذات اللّٰہ
’’امام نہیں ہوسکتا مگروہ جو کتاب خدا کے مطابق حکم کرے، عدالت کوبرپا کرے دین حق کا پابند ہو اور اپنے آپ کو ذات خدا کے لئے وقف کردے‘‘
جب ولیدبن عتبہ نے امام حسین علیہ السلام کو دا الا مارہ آنے کی دعو ت دی اور آپ کومرگ معاویہ کی خبر دی اور پھر یز ید نے اسے بیعت لینے کے حوالے سے جوخط لکھا اما م کو پڑھ کر سنایا۔(۲)تو اما م پاکؑ نے جو اب میں فر ما یا ـ:
’’اگرمیں یہاں خلوت میں پوشید ہ بیعت کرلو ں تویہ تمہا رے لئے کافی نہیں ہو گا، تم چاہوگے کہ میں علی الاعلا ن بیعت کروں تاکہ سب لوگوں کو پتہ چل جا ئے‘‘
تو ولید نے کہا ہاں یہی بات ہے تو آپ نے فر ما یا:
’’ صبح تک صبرکر و دیکھیں صبح کیا ہو تا ہے‘‘
مرو ان جو کہ وہاں موجو د تھا اس نے ولید سے کہا اب اگر حسین بیعت کئے بغیریہاں سے چلے گئے توپھرتم ان پر قا بو نہیں پا سکو گے، لہٰذا انہیں یہیں رو ک لو اور یہاں سے بغیر بیعت کے نہ جانے دو، اگر بیعت نہ کریں تو انہیں قتل کر دو ۔اما م حسینؑ نے فر ما یا:
’’اے زرقا کے بیٹے کس میں جرأت ہے کہ مجھے قتل کرے تم یایہ ، تم نے جھو ٹ بو لا ہے اور پستی کا مظاہر ہ کیا ہے پھر آپ نے ولید کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: اے امیر ہم نبو ت کا خا ندان ، رسا لت کی کان ، فرشتوں کی آمدورفت کی جگہ اور نزو ل رحمت خدا کا محل ہیں ، خدا و ندنے ہمارے ذریعے ابتداء فرما ئی اور ہم ہی پر اختتا م فرمائے گا اور یزید ایک فاسق،فاجر ، شرابخور، بے گناہوں کا قاتل اور علی الاعلا ن فسق و فجور کرنے والا شخص ہے، مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ، کل صبح دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون بیعت و خلافت کا زیادہ حقدا ر ہے‘‘
جب اما م حسینؑ وہا ں سے چلے آئے تو مرو ان نے ولید سے کہا تم نے میر ی بات نہیں مانی اب خدا کی قسم کبھی تمہیں دو بار ہ ایسا مو قع نہیں ملے گا ، ولید نے اس سے کہا:
’’ تم پربڑاافسو س ہے تم مجھے مشور ہ دے رہے ہو کہ اپنا دین و دنیا تبا ہ کرلوں ،خدا کی قسم حسینؑ کے قتل کے بد لے پوری دنیا بھی مجھے مل جائے تو یہ کام نہیں کر نا چاہتا ، عجیب ہے میں حسینؑ کو صرف اس وجہ سے قتل کر دوں کہ وہ کہتے ہیں میں یزید کی بیعت نہیں کر تا ، خدا کی قسم اگر کوئی خون حسینؑکے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا تو اس کا میز ان عمل سبک ہوگااورخدا قیامت کے دن پر اس پر نظر نہیں کرے گا ، رحمت خدا اس کے شامل حال نہیں ہو گی اوراس کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘(۳)
تاریخ کا یہ حصہ امام حسینؑ کے قیا م کے اسبا ب ، ہد ف و مبداء کے تعین اورآپ کے بیعت نہ کر نے کی وجو ہ جا ننے کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ آپ نے ایسی کئی چیزیں ذکر فرما ئی ہیں جن میں سے ہر ایک بیعت کے انکا ر اور قیا م کے وجو ب کے
(۳) سمو المعنی، ص ۱۱۳، ۱۱۴ ، مقتل خوارزمی، ص ۱۸۴،باب ۹
تاریخ کا یہ حصہ امام حسینؑ کے قیا م کے اسبا ب ، ہد ف و مبداء کے تعین اورآپ کے بیعت نہ کر نے کی وجو ہ جا ننے کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ آپ نے ایسی کئی چیزیں ذکر فرما ئی ہیں جن میں سے ہر ایک بیعت کے انکا ر اور قیا م کے وجو ب کے لئے کافی ہے۔
ا ما م حسینؑنے جن موار د کو انکا ر بیعت اور مخالفت پر قیا م کی وجوہ کے طور پر ذکر فرمایا ہے یہ ایسے امور تھے جن کی صحت کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجا ئش نہیں تھی اوران کا مسلّم ہونا سب کے نزدیک واضح و رو شن تھا، حتیٰ کہ یزید کے چچا زاد حاکم مدینہ ولید نے بھی ان باتوں کا انکا ر نہ کیا اور اما م پا ک علیہ السلام کی منطق ، استد لا ل اور مدلّل گفتگو کے سامنے کچھ کہہ نہ سکا ۔
حضرت نے جو گفتگو فر ما ئی اس میں یہ جملہ ـ’’ مثلی لا یبا یع مثلہ ‘‘اما م کی ممتا ز بے نظیر شخصیت کے ساتھ سا تھ یزید کی پست زند گی پر بھی مکمل روشنی ڈالتاہے کہ فر ما یا مجھ(حسین) جیسا جس کا ماضی اتنا تابنا ک ہے اور آج اس معا شرے میں مجھ سے زیادہ کوئی بھی مستحق رہبریت نہیں ہے،یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جو عظیم المر تبہ اسلامی اہداف کو پورا کرنے کے لئے مر کز نگا ہ ہے ،مسلمانوں کی عظمت و عز ت کا منبع و مصدر ہے ، کلمہ اسلام کی بلندی کا ذریعہ ہے ، قرآن و امر بالمعر و ف کا حامی ہے برا ئی و منکر سے روکنے والاہے یعنی وہ رسو ل ؐ خدا کا قائم مقام وجا نشین ہے اس کی اطا عت و فرمانبرداری کا عہد و پیما ن بیعت کہلاتا ہے۔
بیعت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ میں حقیقی و وا قعی خلیفہ کے اوا مر کا فر ما نبر دار و پابند رہوں گا اور اس کے احکا م کی انجا م دہی کے لئے ہر طرح کی قربا نی کے لئے تیارر ہوں گا ، یہی اطیعو اللّٰہ واطیعو الر سول واولی الا مر منکم کا تقا ضا ہے۔ یزید کی اس طرح کی بیعت اگر چہ صرف ظا ہری اور دفع ضر ر ہی کی خا طر کیوں نہ ہو یہ ہر طرح کے فسق و فجو ر، علی الاعلان شرابخوری و گنا ہ اور حقو ق کی پا ما لی کی قا نو نی حیثیت کو تسلیم کر نا اور فاسق و فا جر اور ظالم افرا د پر اظہا ر اعتما د شمار ہو گی اور اما م حسینؑ جیسی شخصیت سے اس عمل کا سر زد ہو نا نہ شرعی طور پر ممکن تھا اور نہ عرفی طور پر ۔
اس بیعت کا مطلب یہ ہے کہ بے گنا ہوں کے قتل اور اسلام کی عز ت و آبر و کو بازیچہ بنا نے میں ، میں ہر طرح سے آپ کی معاونت کر نے پر تیا ر ہوں ۔ا ما م حسینؑ کا مقدس و پاک دامن اس پست بیعت کے داغ سے کبھی آلو دہ نہیں ہو سکتا تھا اسی وجہ سے امام حسینؑ نے ایک بد یہی ، مسلّم اور مورد اتفا ق حکم کے طور پر فر ما یا ـ : مثلی لا یبا یع مثلہ‘‘کیونکہ کوئی با ضمیر مسلما ن قطعاً یہ بات نہ کہتا کہ اما م حسینؑ کو یز ید کی بیعت کر نی چاہیے۔
حضر ت امام حسینؑ نے اپنے در خشا ں و تابنا ک ماضی ،اپنی عظیم اسلامی شخصیت کا اور یزید کے گذشتہ کردا ر کا حوالہ دیتے ہو ئے جو نتیجہ ذکر فر ما یا وہ سب کے لئے قابل قبول تھا، ہاں اگر تما م مسلمان ذلت و پستی کو قبو ل کر تے ہو ئے یزید جیسے کی بیعت کر لیں اور اس کی امارت پر راضی ہوجائیں تب بھی اما م حسینؑ جو فضائل و اخلاق اور عظیم مقامات کے مالک ہیں ، اسلام اور قرآنی تعلیما ت کی نجا ت کے لئے مسلمانوں اور اسلام کی امیدوں کا مر کز ہیں اس شخص کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں جو شر ارت ،پلید ی ، گناہ اور فسق و فجور کا مر کز ہے ۔اما م حسین علیہ السلام کی با ت سب سے الگ ہے ، آپ اہل بیت نبو ت، معد ن رسالت فرشتوں کی رفت و آمد کا مرکز،محبط رحمت الٰہی اور اما م حسن علیہ السلام کے بعد واحد نو اسۂ رسو ل تھے ، آپ نے مکہ سے کربلا جا تے ہو ئے ایک منز ل پر فرزدق سے فرمایا ـ:
’’ ان لو گوں نے خدا کی اطا عت چھوڑ کر شیطا ن کی اطا عت اختیار کرلی ہے ، فسا د کا اظہا ر کر تے ہیں ، حدو د خدا کا خیا ل نہیں رکھتے ، شر اب پیتے ہیں اور فقراء و مساکین کے امو ا ل غصب کرچکے ہیں ،اب دین ، عزت ، شر ف کی مدد و نصرت اور کلمہ خدا
(۴) تذکر ہ الخو اص ،ص ۲۵۲
(۵) تاریخ طبر ی، ج۴ ، ص ۲۶۲
’’ ان لو گوں نے خدا کی اطا عت چھوڑ کر شیطا ن کی اطا عت اختیار کرلی ہے ، فسا د کا اظہا ر کر تے ہیں ، حدو د خدا کا خیا ل نہیں رکھتے ، شر اب پیتے ہیں اور فقراء و مساکین کے اموال غصب کرچکے ہیں ،اب دین ، عزت ، شر ف کی مدد و نصرت اور کلمہ خدا کی سر بلند ی کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے بڑی ذمہ داری مجھ پر عائد ہو تی ہے‘‘(۴)
جب بات یہاں تک پہنچ جا ئے کہ یز ید جیسا شخص مسند رسو ل اکرم ؐ پر بیٹھ کر اپنے آپ کو مسلمانوں اور پو رے عالم اسلام کا دینی و سیا سی رہبر سمجھنے لگے تو پھر اما م حق کے پاس اس کے علا وہ کوئی چا رہ کار نہیں رہتا کہ وہ خطرے کا اعلا ن کرے اور اس کی حکومت کو ناجا ئز حکومت کہتے ہو ئے اس کے خلاف اعلان جنگ کرے، کیونکہ بڑے بڑے صحابہ و تابعین کا اس پلید فطر ت شخص کی بیعت کر لینا لو گوں کی نظر وں میں اس کی حکومت کی صحت و جوا ز پر مہر و تا ئید تھی جو حقیقی خلافت کی نابو دی ، اسلامی رہبر یت و اما مت کی تمام شرائط سے عدو ل اور معاشرے کو گمر اہی و ضلالت کے سپر د کر نے کے مترا دف تھا ،مو منین کی گردنوں میں اس بیعت کی مثا ل اس طوق گردن اور زنجیر وں والی تھی جس کا بوجھ ان کی روح پر پہاڑوں سے بھی زیادہ تھا۔
اما م حسینؑ نے اس منطق کے ساتھ قیا م کیا اورا س با ت پر ڈٹے رہے اور فرما یا :
ما الا مام الا العامل بالکتا ب والقائم بالقسط والدائن بدین الحق والحاسب نفسہ علی ذات اللّٰہ۔(۵)
’’اما م نہیں ہو سکتا مگر وہ جو کتاب خدا کے مطا بق حکم کر ے، عدالت کو برپا کر ے ، دین حق کا پابند ہو اور اپنے آپ کو ذات خدا کے لئے وقف کر دے ‘‘
عا شورہ کے دن آپ پر مصیبتوں کے پہا ڑ ٹو ٹ رہے تھے، آپ اس دن بھی اپنی اس منطق کا تکر ار فر ما تے ہیں :
اما واللّٰہ لا اجیبھم الی شئی مما یر ید ون
(۶) سمو المعنی، ص ۱۱۸
حتٰی القیٰ اللّٰہ وانا مخضب بدمی۔(۶)
’’خدا کی قسم جو مجھ سے یہ چا ہتے ہیں ( بیعت یزید ) وہ میں ہرگز قبو ل نہیں کر وں گا،یہاں تک کہ خداسے ملاقا ت کرلوں اس حال میں کہ میر ی دا ڑھی میرے خو ن سے رنگین ہو گی ‘‘
اما م حسینؑ کے دور کے اسلامی معاشرے کے بارے میں بہتر اور منصفانہ نظریہ کے لئے یہاں ہم ایک رو شن فکر اہل سنت محقق جنا ب سید قطب ( مصر ی انقلا بی عالم و مفسر )کے نظریئے کو پیش کر تے ہیں وہ لکھتے ہیں :
’’اموی حکومت اسلامی خلافت نہیں تھی، بلکہ ایک ظالم و استبدادی حکومت تھی جو وحی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی بلکہ جاہلیت کے افکا ر سے پُرتھی ، یہ با ت سمجھنے کے لئے کہ امو ی حکومت کن بنیا دوں پر استوار تھی، بیعت یزید کی کیفیت کو جا ن لینا ہی کافی ہے ، معاویہ نے مختلف لوگوں کو بلا بلا کر یزید کی بیعت کے حوالے سے مشور ہ کرنا شروع کیا ۔ یزید بن مقفع نامی شخص نے معاویہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا آپ امیر المو منین ہیں ۔ پھر یزید کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے کہا معاویہ کے بعد امیر المومنین یہ ہے اور پھر کہا جو بھی یزید کو نہ ما نے اس کے لئے تلو ار ہے ، معاویہ نے اس سے کہا تم بیٹھ جاؤ ماشاء اللہ تم بڑے پا ئے کے خطیب ہو ‘‘
اس کے بعد سید قطب ذکر کر تے ہیں کہ کیسے مکہ میں معا ویہ نے یز ید کی بیعت لینے کے لئے ہر طرح کے حربے جیسے زبردستی ، دھو نس ، دھا ند لی ، دھو کہ و دھمکی سے استفا دہ کیا۔(۷)وہ
(۷) العدالۃ الا جتما عیۃ فی الاسلام ، ص ۱۸۰ اور ۱۸۱
(۸) العدالۃ الا اجتما عیۃ فی الاسلام، ص ۱۸۱
اس کے بعد سید قطب ذکر کر تے ہیں کہ کیسے مکہ میں معا ویہ نے یز ید کی بیعت لینے کے لئے ہر طرح کے حربے جیسے زبردستی ، دھو نس ، دھا ند لی ، دھو کہ و دھمکی سے استفا دہ کیا۔(۷)وہ یزید کی بعض کثافت کاریوں جیسے شر اب خوری ، زنا اور تر ک نما ز وغیر ہ کو نقل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں :
’’یزید کے سیا سی کار نا مے جیسے قتل حسینؑ ، خانہ کعبہ کا محاصرہ ، اس پر سنگ باری ، خانہ کعبہ کی تخریب اور اسے جلانا اور واقعہ حرہ سب شاھد ہیں کہ یزید کے بارے میں جوکچھ بھی کہا گیا ہے اس میں ذرا بھر مبالغہ نہیں ہے… یزید کی خلافت کے لئے نامزدگی اسلام، اسلامی نظا م اورا سلام کے اہدا ف و مقا صد پر بڑ ی کاری ضرب تھی ۔ (۸)
معاویہ کے دور میں نظا م حکو مت دن بد ن اسلامی روش سے دور ہو تا گیا اور حکومت کی ظاہری شکل و صورت میں عجیب تبد یلیاں وجود پذیر ہو گئیں اور معاویہ نے اس میں یزید کی ولی عہدی کی صورت میں آخری کیل ٹھو نک دی اور جیسا کہ سید قطب نے لکھا ہے یہ قلب اسلام اور نظام اسلام پر بڑی کاری ضربت تھی لہٰذا اما م حسینؑ پر ( اما م حق ہونے کے ناطے) اس کا ازا لہ کرنا ضروری تھا اور اسلام کے پیکر پر وارد ہونے والے زخموں پر مرہم رکھنا ضروری تھا اور آپ پر لازم تھا کہ لوگوں کو مطلع کریں کہ یہ حکومت شرعی واسلامی نہیں ہے اور اسلامی حکومت کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے ۔
اما م پا کؑنے اپنے قیام کے سا تھ دین و شر یعت کی نظر حکو مت یزید کے بارے میں لوگوں پر واضح کردی، اگرامام خا مو ش رہتے یا یزید کی بیعت کر لیتے تو لوگوں کے دلوں میں اسلام اوراسلامی نظا م کے بارے شبہا ت جنم لیتے اور اسلام با قی نہ رہتا ۔
اما م غزا لی ( اہل سنت کے بہت بڑے عالم) امو ی حکومت کے مفا سد کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ حقیقت یہ ہے کہ جو دھچکا اسلام کو بنی امیہ کے فتنوں سے لگا وہ اتنا زیا دہ
(۹) الا سلام والا ستبدا د اسیا سی، ص ۱۸۷اور ۱۸۸
اما م غزا لی ( اہل سنت کے بہت بڑے عالم) امو ی حکومت کے مفا سد کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ حقیقت یہ ہے کہ جو دھچکا اسلام کو بنی امیہ کے فتنوں سے لگا وہ اتنا زیا دہ شدید تھا کہ اگر اسلام کے علا وہ کسی اور مذہب کو لگتا تو وہ مکمل نا بو د ہو جا تا اور اس کی بنیادیں تبا ہ ہوکر رہ جاتیں ‘‘(۹)
یہ مختصر طور پر تذکر ہ تھا ان نقصانات اور خطرات کا جو یز ید اور امو ی حکومت سے اسلامی حکومت کو اٹھانا پڑ ے اور جس نے اسلامی حکومت کو جو کہ اسلامی عدالت کا اعلیٰ ترین نمو نہ تھی لوگوں کی نظر وں میں ناپسند یدہ بنا دیا ۔اگر امام حسینؑ اسلام کی مدد کو نہ اٹھتے اور حکومت کواسلامی حا کمیت سے جدا نہ کرتے تو اسلام کے دا من پر ہمیشہ ننگ و عا ر کے دھبے رہ جاتے اور عدا لت اور دین کاممتا ز حکومتی نظا م مکمل طور پر پاما ل ہو جا تا ۔