Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، سنت کے مطابق انجام شدہ تھوڑا سا عمل اُس زیادہ عمل سے بہتر ہے جو اپنی مرضی کے مطابق انجام دیا جائے۔ مستدرک الوسائل حدیث 6773

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

سوا ل ۳۶ : زنجیرزنی ، سینہ زنی اور تعزیہ وغیرہ جیسی رسمیں کس ثقافت وملت سے ہیں ؟
(۱) مو سوعۃ العتبا ب المقدسہ، ج۸ ص ۳۷۸
(۲) مو سیقی مذہبی ایران، ص ۲۶
(۳) حوالہ سابق، ص ۳۳ ،۳۵، در آمد ی بر نما ئش و بنا ئش ایران، ص ۸۶
جواب : زنجیرزنی ہند و ستا ن اور پا کستا ن سے ایرا ن میں آئی ہے ، چو نکہ اس سے بعض دفعہ مذہب کے بار ے میں غلط طرز تفکر کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اس وجہ سے بعض فقہاء نے اسے حرا م قرار دیا ہے، لیکن اگر اس طرح انجا م پا ئے کہ جس سے مذہب اور مراسم عزاداری سیدالشہداء کی توہین اور حرف زنی کا اندیشہ نہ ہو تو زنجیر زنی میں کو ئی ڈر نہیں ہے اور آج کل ایرا ن میں جو عزاداری رائج ہے اس میں عزادا ری کے تما م پہلو ؤں کا خیال رکھا جا تا ہے۔(۱)
سینہ زنی کا طریقہ اصل میں عر بوں میں رائج تھا ،آہستہ آہستہ موجود ہ شکل میں آگئی کہ نوحہ کے ذریعہ سینے پر ہا تھ ما رے جا تے ہیں ، اس طرح کی سینہ زنی ابتدا ء میں انفرادی تھی بعد میں جو عزاداری کا حصہ بن گئی وہ بھی وسیع سطح پر خصوصا ًصفو ی دور میں تو پھر اس نے اجتما عی شکل اختیا ر کرلی۔(۲)
تعزیہ کا مطلب واقعہ عا شورہ کو مجسم شکل میں پیش کر نا ہے اس طرح کی عز ادا ری کریم خا ن زند کے دور میں شروع ہوئی اور پھر صفو ی دور میں اس نے رو ا ج پکڑا ، نا صر الدین شاہ قاجار کے دور میں اس میں وسعت پیدا ہو ئی ، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ شا ہ ایران ،یو رپ میں واقعات پیش کر نے کے طریقے دیکھ کر آیا تو اس نے وا قعہ عاشورہ کو اس طرح پیش کر نے کا کہا ، البتہ اس طرح تعزیہ و نما ئش کا طریقہ صرف ایرا ن میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی رائج تھا ، وہاں اس کے اپنے طر یقو ں کے مطابق انجام پاتا تھا خصوصاًہندو ستا ن اور پا کستا ن میں زیادہ رائج تھا وہاں تعزیہ داری کا اور طریقہ ہے کہ ضریح اما م حسینؑ کی شبیہ بناکر اسے عزاداری میں اٹھایا جاتا ہے۔(۳)
سوال ۳۷ : عزا داری کے جو طریقے صدر اسلا م میں موجود نہیں تھے کیا وہ دین میں بدعت شمار نہیں ہوں گے ؟
جوا ب : پہلا یہ کہ: تو جہ رہنی چاہیے کہ عزادا ری کے موجودہ طریقے عزاداری کی حقیقت و ماہیت سے فرق رکھتے ہیں ، عزادا ر ی کی حقیقت ایک ہی اصل ہے جو مختلف شکلوں اور اقسام میں انجام پاتی ہے، لہٰذا یہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے۔
دوسرا یہ کہ : حقیقت کا اظہا ر بھی عزادا ری کے پیغا م کے منا سب ہو نا چاہیے اس طرح کہ بہترین اور مؤ ثر و مفید اندا ز میں عزاداری کے در س اور تعلیما ت کو دو سر و ں تک پہنچا سکے یعنی ایسا لباس ہو جو اس کے قد پر پو را اتر ے اگر چھو ٹا ہو تو مکمل پیغا م اپنے اندر نہیں لے سکے گا اور اگر لمبا ہو تو مخا طب کے ذہن کو اصل پیغا م سے منحرف کردے گا اور وہ حقیقت سمجھ نہیں سکے گا۔
تیسرا یہ کہ : پیغا م پہنچا نے کے لئے ان مختلف طریقوں سے فائد ہ اٹھا یا جا سکتا ہے جو مختلف اقوام میں رائج ہیں ، جیسا کہ اسلا م نے ہند و ستا ن میں اپنا پیغا م پہنچانے کے لئے اردو زبان سے فائد ہ اٹھا یا ، یا فلسفہ کویو نا ن سے لیا اور اسے اپنی تعلیما ت پہنچا نے کے لئے استعما ل کیا۔
چوتھا یہ کہ : اسلام اقوا م و ملل کے رسو م و آدا ب کو احتر ا م کی نگا ہ سے دیکھتا ہے جب تک وہ اسلام کی اصلی تعلیما ت سے نہ ٹکرا تے ہوں وہ ا ن سے رو کتا بھی نہیں ہے مثلاً لوگوں کے رہن ، سہن ، غذا اور لبا س کے بارے میں اسلا م کوئی پا بند ی نہیں لگا تا مگریہ کہ ان میں سے کوئی چیز اسلام کے اصولوں سے ٹکر ا جا ئے ۔
مذکو رہ بالامطا لب کی روشنی میں عزادا ری اہل بیت علیہم السلام بھی اسلام کی نظر میں مختلف اقوام میں رائج و مرسو م طریقو ں اور شکلوں میں انجا م دی جا سکتی ہے بشر طیکہ وہ طریقے ، وہ شکلیں اور وہ انداز اس کے اصل پیغا م اور روح کے منافی نہ ہوں ، بلکہ بہترین طریقے سے پیغا م کو ذہن مخاطب تک پہنچا سکیں ، لہٰذا عزاداری کے جو طریقے صدر اسلام میں رائج نہیں تھے جیسے زنجیر زنی ، سینہ زنی ، اور تعزیہ وغیر ہ وہ نہ صر ف یہ کہ بد عت نہیں ہیں
بحار الا نوار ،ج ۴۴ ص ۲۲۳،۲۴۳،۲۴۴،۲۴۵، ۲۸۱،۲۸۲،۲۸۹،۲۹۱،۲۹۳
مذکو رہ بالامطا لب کی روشنی میں عزادا ری اہل بیت علیہم السلام بھی اسلام کی نظر میں مختلف اقوام میں رائج و مرسو م طریقو ں اور شکلوں میں انجا م دی جا سکتی ہے بشر طیکہ وہ طریقے ، وہ شکلیں اور وہ انداز اس کے اصل پیغا م اور روح کے منافی نہ ہوں ، بلکہ بہترین طریقے سے پیغا م کو ذہن مخاطب تک پہنچا سکیں ، لہٰذا عزاداری کے جو طریقے صدر اسلام میں رائج نہیں تھے جیسے زنجیر زنی ، سینہ زنی ، اور تعزیہ وغیر ہ وہ نہ صر ف یہ کہ بد عت نہیں ہیں بلکہ اسلام کے معا ون و مددگار ہیں اوراپنی حد تک عاشورہ و اہل بیتؑکی تعلیمات اور شعاروں کو لوگوں تک پہنچا تے ہیں اوران کے قلب و ذہن کو اس طرف متو جہ کر تے ہیں ۔