Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، ’’اللّٰہ‘‘ کے معنی ہیں جس کے بارے میں مخلوق حیران ہو اور اس کی طرف پناہ لی جائے اور ’’اللّٰہ‘‘ وہی تو ہے جو آنکھوں کے ادراک سے پوشیدہ اور وہم و گمان سے مخفی ہے التوحید باب 4، بحارالانوار کتاب التوحید باب6

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

سوال ۴۰ :کیا دوسر ی اقوا م میں بھی سیا ہ لبا س را ئج ہے ؟ کیا اسلام کے بعد یہ لبا س اعراب یا عباسیوں کے ذریعے ایران میں داخل ہوا، جبکہ ایرانی تمدن میں ایسی چیز موجود نہیں تھی؟
جوا ب : پہلا :سیا ہ لبا س پو ری تا ریخ میں بشر کی دیرینہ سنت رہی ہے، قدیم ایرا ن ہو یا یونان یا دور جا ہلیت کا عرب۔
دوسرا:سیا ہ پو شی عبا سیوں یا عر بوں سے ایرا ن منتقل نہیں ہوئی ،بلکہ ملت ایرا ن کی ثقافت میں اس کی جڑیں بہت قد یم ہیں ،درج ذیل نکا ت اس مطلب کو کافی حد تک روشن کر تے ہیں ۔
۱)سیاہ پوشی کی تاریخ
قدیم تاریخی اور ادبی شو ا ہد کثر ت سے اس حقیقت پر دلا لت کر تے ہیں کہ بہت سی قو میں عزادا ری کی حالت میں سیا ہ لبا س پہنا کر تی تھیں ، یہاں اختصا ر کے پیش نظر صرف ایرا ن ، یو نا ن اور عر بو ں کی قد یم تہذیب سے چند نمو نے ذکر کئے جا تے ہیں ـ:
الف ) قدیم ایران
(۱) معجم البلدا ن حمو می، ج ۳ ص ۴۵۲ ، اور تا ریخ گیلا ن و دیلمستا ن ص ۲۲۳
(۲) دائر ۃ المعا ر ف ج ۶ ص۷۱۰ ۔۷۲۲
قد یم ایرانی کتا بوں میں کثر ت سے ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے ایران میں سیا ہ لبا س غم و ماتم کی علا مت سمجھاجاتا تھا، شا ہنا مہ فردو سی جو کہ قد یم ایرانی تمدن و ثقا فت کا ترجما ن ہے ایسے واقعات سے بھر ا پڑ ا ہے جن میں سیا ہ لبا س غم و ماتم کی نشانی کے طور پر ذکر ہو ا ہے۔خصوصاً جب رستم اپنے بھا ئی شغا ر کے ہا تھو ں انتہا ئی بزدلی سے قتل ہو جاتا ہے فردوسی کہتا ہے :
بہ یک سا ل در سیستا ن سو گ بو د
ہمہ جامہ ہاشان، سیاہ و کبود
عصر سا سا نی میں بھی جب بہرا م گو ر کی وفا ت ہو ئی تو اس کے ولی عہدد یز د گردنے کہا ۔
چہل روز سو گ پد ر دا شت راہ
بپوشد لشگر کبو د و سیا ہ
جب فرید ون کی وفا ت ہو ئی تو اس کے پو تے اور اس کے جا نشین نے کہا
منو چھر یک ہفتہ با درد بود
سپاہش ہمہ کردہ جامہ سیاہ
دو چشمس پر از آب و رخ زدہ بود
تو ا ن گشتہ شاہ و غریوان سپاہ
یہ سیا ہ لبا س آج بھی ایرا ن میں رائج ہے (۱)
ب) قدیم یونان
قدیم یو نا نی دیو ما لا ئی داستا نوں میں آیا ہے کہ جب ہیکڑ کے ہا تھو ں پٹر و کلو س قتل ہو گیا اور اس کی وجہ سے ٹیٹس سخت غمگین ہو گیا تو اس نے عز ا وغم کی حالت کے اظہارکے لئے انتہائی سیا ہ لباس زیب تن کر لیا ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ یونان میں سیاہ پوشی کی رسم انتہائی پرا نی ہے جو کہ ہو مر کے دور تک جا پہنچتی ہے۔
(۳) دائر ۃ المعا ر ف ،ج ۶، ص۷۱۰ ۔۷۲۲
(۴) ربیع الا برار نصوص الا خبار ،ج۳، ص ۷۴۷
(۵) اخبا ر الد و لۃ العبا سیۃ، ص ۲۴۷
(۶) السیرۃ النبو یہ ،ج۳،ص ۱۰۔۱۱
(۷) تمدن اسلام در قرن چہارم ہجری، ج ۲ ،ص ۱۲۷
عبرا نیوں (قدیم یہودیوں ) میں بھی رسم یہی تھی کہ اپنے رشتہ دا روں کے سوگ میں سر منڈوا کر اس پر را کھ مل لیتے اور لباس سیا ہ یا اس جیسے رنگ کے پہنتے ۔ (۲)
بستا نی اپنے دا ئر ہ المعا ر ف میں یو ر پی تمد ن کی ان آخر ی صدیوں میں عز ا و سوگ کے لئے سیا ہ رنگ کو منا سب تر ین قرار دیتے ہو ئے لکھتے ہیں :
’’عزادا ری و سو گ کی مد ت مرنے والے کے ساتھ رشتہ کے لحا ظ سے ایک ہفتہ سے ایک سا ل تک رہتی ہے، بیو ہ تقریبا ایک سا ل تک غم منا تی ہے اور اس مد ت میں اس کا لباس سیاہ ہوتاہے بغیر کسی نقش و نگا ر اور زیورا ت کے ۔(۳)
ج ) اعرا ب ، تا ریخ ، شعر ، لغت اور سیر ت سے پتہ چلتا ہے کہ عر ب مصر و شا م کے ہوں یا عرا ق و حجا ز کے سب کے نزدیک سیا ہ رنگ سو گ کی علا مت سمجھا جا تا ہے۔زفحشری ( چھٹی صد ی ہجر ی کے مفسر و ادیب ) لکھتے ہیں کہ ایک ادیب بیا ن کر تاہے میں نے ایک را ہب کو سیا ہ لبا س میں دیکھا اس سے پو چھا کہ تم نے سیاہ لبا س کیوں پہنا ہو ا ہے؟ تو اس نے کہا تم یہ بتا ؤ جب عر بوں کا کوئی عزیز فوت ہو تا ہے تو وہ کیا پہنے ہیں ؟ میں نے کہ سیا ہ لباس تو اس نے کہا میں بھی اپنے گنا ہوں کے غم میں سیا ہ لبا س پہنے ہو ئے ہوں ۔(۴)
تاریخی کتا بوں میں آیا ہے کہ عرب مصیبت میں اپنے لباس سیا ہ کر لیتے تھے۔ (۵)جنگ بد ر میں جب مشرکین و قر یش کے ستر افر اد مسلما نو ں کے ہا تھو ں ما رے گئے تو انہو ں نے اپنے مقتولوں کے سوگ میں سیا ہ لبا س پہن لئے(۶)۔ ان تا ریخی اور ادبی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زما نوں سے سیا ہ رنگ مختلف قو موں میں غم و ماتم کی نشانی رہا ہے اور یہ چیز ایرا ن کے اسلامی دورکے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اسلام سے پہلے عرب
(۸) شر ح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱۴ ،ص ۲۲
(۹) بحا را لا نوا ر، ج ۴۵ ،ص ۱۸۸تاریخی کتا بوں میں آیا ہے کہ عرب مصیبت میں اپنے لباس سیا ہ کر لیتے تھے۔ (۵)جنگ بد ر میں جب مشرکین و قر یش کے ستر افر اد مسلما نو ں کے ہا تھو ں ما رے گئے تو انہو ں نے اپنے مقتولوں کے سوگ میں سیا ہ لبا س پہن لئے(۶)۔ ان تا ریخی اور ادبی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زما نوں سے سیا ہ رنگ مختلف قو موں میں غم و ماتم کی نشانی رہا ہے اور یہ چیز ایرا ن کے اسلامی دورکے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اسلام سے پہلے عرب ، ایرانی اور یو نا نی قو میں سو گ میں سیا ہ لبا س پہنا کر تی تھیں ۔(۷)
۲)اہل بیت علیہم السلام کا سیا ہ لبا س پہننا
معتبر حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ اورائمہ طاہرینؑ نے بھی اس قد یم تاریخی سنت کی تا ئید فر ما ئی ہے اورا پنے عز یز وں کے سو گ میں سیا ہ لبا س زیب تن فرماتے رہے ہیں ۔
شر ح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید رو ایت کر تے ہیں کہ حضر ت اما م حسینؑ نے اپنے با با علی علیہ السلام کے سو گ میں سیا ہ لبا س زیب تن فر ما یا اور اسی سیا ہ لبا س میں آپ لوگوں میں تشریف لائے اور خطبہ ارشا د فر ما یا (۸)
ایک حدیث کواکثر محد ثین نے نقل کیا ہے ۔ اما م محمد با قر علیہ السلام نے فر ما یا : بنی ہاشم کی عورتوں نے امام حسینؑ کے سوگ میں سیا ہ لبا س پہنے۔
لما قتل الحسینؑبن علیؑ وکا ن علیؑ بن الحسینؑ یعمل لھن الطعا م الما تم (۹)
’’جب حسینؑبن علیؑکی شہا دت ہو گئی تو بنی ہا شم کی عو رتو ں نے سیاہ اور سخت بالوں کے لباس پہن لئے وہ گرمی و سردی کی پروانہ کر تیں اور ان کے مشغو ل ماتم ہونے کی وجہ سے ہمارے بابا علیؑ بن الحسینؑ ان کے لئے کھا نے کا بند و بست فرما تے ‘‘
عبا سیوں کے سیا ہ لبا س کی وجہ
عبا سی اپنے قیا م کے دور ا ن شہدائے اہل بیتؑ کے انتقا م کا نعر ہ لگا تے رہے اور
(۱۰) شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحد ید، ج ۷ ،ص ۱۷۲
(۱۱) اخبا ر الدو لۃ العباسیۃ، ص ۲۳۰۔۲۳۲،۲۴۲
(۱۲) سیاہپو شی در سو گ ائمہ نور، ص ۱۹۵۔۲۰۰، ۱۲۹۔۱۵۵، ۷۶،۷۷
عبا سی اپنے قیا م کے دور ا ن شہدائے اہل بیتؑ کے انتقا م کا نعر ہ لگا تے رہے اور جب انہوں نے حکومت حاصل کرلی تو اپنی حکومت کو حکو مت آل محمد کا نا م دیا اور اسے علی ابن ابی طا لبؑ کی خلافت کا تسلسل کہتے رہے اپنے وزیر اعظم ابو مسلمہ خلال کو وزیر آل محمد اور اپنے مشہو ر داعی ابومسلم خرا سا نی کو امیرآل محمد یا امین آل محمد کہتے تھے۔ انہو ں نے عزت رسول ؐ کی ہتک حرمت اور اہل بیت رسو لصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ڈھا ئے جانے والے مصائب پر سوگ و عزا کی خاطر اپنے لئے سیاہ لبا س کا انتخاب کیا ،کیو نکہ اپنے عز یز وں کی وفا ت پر سیا ہ پوشی ایک رائج سنت تھی خصوصاً شہد اء اہل بیت کے غم میں ۔(۱۰)
بنی عبا س نے کر بلا کے مظلو م شہید وں ، زید اور یحییٰ کے انتقا م کے نا م پر اپنے سیا ہ پرچم اور سیا ہ لبا س کو اہل بیتؑ کے شہید وں کے سوگ کے طور پر اختیار کیا اورا س حربے کے ساتھ اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کو اپنے سا تھ ملا لیا اوراس ظاہری تبلیغ کو لوگوں کے ذہنوں میں زند ہ رکھنے کے لئے حکومت حاصل کر نے کے بعد بھی انہوں نے سیا ہ پر چم اور سیاہ لباس کو اپنا ئے رکھا اوراسے اپنا ہمیشہ شعا ر بنا لیا۔(۱۱)
ان کے اسی ظاہر ی دھو کے کی وجہ سے اما م صا د ق علیہ السلا م اور دوسر ے آئمہ طاہرین نے سیاہ لباس پر بعض دفعہ تنقید بھی کی ، ان مو ا رد میں آئمہ نے سیا ہ لبا س کی مخالفت بطور مطلق نہیں فر ما ئی بلکہ اس خا ص سیا ہ لبا س پر تنقید کی ہے جو عبا سی حکو مت کی طرف سے لازم کر دیا گیااس حکومت کے ساتھ تعلق کی علا مت کی طو ر پر اور ظالم حکومت کی اطا عت کے عنوا ن سے ، نہ کہ اہل بیت کے شہید وں کے غم میں سیا ہ پو شی کی مذمت کی ہو ایسا قطعانہیں تھا۔(۱۲)