Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، جس بندے میں چار خصلتیں پائی جاتی ہیں اس کا ایمان کامل ہوتا ہے، اس کا اخلاق اچھا ہو، خود کو حقیر سمجھے، فضول باتوں سے بچا رہے اور اپنے بچے ہوئے مال کو خرچ کردے بحارالانوار کتاب الایمان والکفر باب14

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

عاشورہ کے حسین وخو بصورت پہلو

سوال ۶۱: عا شو رہ کے حسین پہلو کیسے سمجھے جا سکتے ہیں اور کیسے حضرت زینبؑ کے اس کلام{مارأیت الا جمیلا}کا ادراک کیا جاسکتا ہے؟
جو اب : کہا جاتا ہے کہ بعض دفعہ دیکھنے والی آنکھ میں عظمت ہو تی ہے نہ کہ اس چیز میں جسے وہ دیکھ رہی ہے، اس طرح کبھی خو بصور تی انسا ن کی نگا ہ میں ہو تی ہے نہ ان چیزوں میں جنہیں انسا ن دیکھتا ہے ،جو نظام احسن کی آنکھ سے ہر چیز کو دیکھتا ہے ، اسے ہر چیز خوبصورت نظر آتی ہے ، جس عینک سے آپ ہستی اور واقعا ت کو دیکھ رہے ا س طر ح ہی وہ آپ کو نظر آئیں گے۔
کا ئنات اور زند گی کو خو بصورت دیکھنے سے روح و ضمیر کو بھی سکو ن ملتا ہے ، ان میں پائیداری و پامردی بھی پیدا ہو تی ہے اور ان میں مشکلات کو برداشت کر نے کی قدرت پیدا ہوجا تی ہے۔ اس نظر سے عا شورہ جیسا کہ حضر ت زینبؑ نے فر ما یا سوا ئے خو بصو رت و جمال کے کچھ نہیں تھا ، بی بی زینبؑ نے دشمن کے طعنہ کے جو اب میں جومارأیت الا جمیلا(۳)فرمایا،آپ سے پہلے حسینؑ بن علیؑ اس سفر کی ابتدا ء میں اس کی امیدکر چکے تھے کہ امید ہے جو ہمیں پیش آرہا ہے اور جو کچھ خدا وند نے ارا دہ فرما یا ہے وہ خیر ہو آپ کے لئے اور آپ کے ساتھیوں کے لئے چاہے فتح کی صورت میں ہو یا شہادت کی صور ت میں فرمایا :
نرجوان یکو ن خیرا ً مااراداللّٰہ بنا قتلنا ام ظفرنا (۴)
(۳)اصول کافی ، ج۲
بہن کا خوبصورت دیکھنااور بھا ئی کا خیر دیکھنا ایک دوسرے کی تکمیل کر تے ہیں ۔
کربلا میں حسن و جما ل او ر خو بصور تی کے مظا ہر و منا ظر بہت زیادہ ہیں ہم بعض کی طرف اشا ر ہ کر تے ہیں ۔
۱)تجلی کمال آدم
انسا ن کہاں تک بلند ہو سکتا ہے، کس حد تک خدا ئی اور فا نی ہو سکتا ہے ، یہ میدا ن عمل میں روشن ہو تا ہے، کر بلا ء میں پتہ چلتا ہے کہ انسا ن کی عظمت ، بلند ی ، روحی کما ل و عظمت وجود ، کمال جوئی اور کما ل یا بی کہاں تک جا سکتی ہے ، اس دلیر انہ معر کہ کی تا ریخ کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ :
تاچہ حد است مقا م آدمیت
آدمی کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے
یہ نکتہ خو بصو رتیوں اور اقدا ر کی کھو ج کر نے والوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
۲)قضا ئے خدا پر رضا کا جلوہ
عرفا نی سیرو سلو ک کے مراحل میں مقا م رضا پر پہنچنا بہت مشکل اور دشوار ہے ،اگر ثانی زہرا ء وا قعہ کر بلا کو خو بصورت دیکھتی ہیں تو اس خا طر کہ سیدا لشہدا ء اور ان کے ساتھیوں کے عمل میں اس عظیم منز ل کا ظہو ر نظر آتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جس معا شرے میں کوئی درد کے بارے میں سو چتا ہے اور کوئی اس کے درما ن کے با رے، لیکن سیدا لشہدا ء اسے پسند کر تے ہیں جو جان جا نا ن کو پسند تھا ، کر بلا و قضا ئے خدا پر انسان کی رضا کا مر کز تجلی ہے ، آپ زند گی کے آخر ی لحظوں میں اپنے مقتل میں فر ما تے ہیں : الٰہی رضاً بقضا ئک بہن نے بھی یہی کہا تھا :ارضی بقضاء اللّٰہ ’’میں قضا ئے خدا پر راضی ہوں ‘‘ عرفا ن کی یہ منزل کہ جہاں سالک اپنے آپ کو کچھ نہ دیکھے صر
(۴) بحا ر، ج ۴۵، ص ۱۱۶
(۵) اعیا ن الشیعہ، ج۱ ،ص ۵۹۷
یہ سچ ہے کہ جس معا شرے میں کوئی درد کے بارے میں سو چتا ہے اور کوئی اس کے درما ن کے با رے، لیکن سیدا لشہدا ء اسے پسند کر تے ہیں جو جان جا نا ن کو پسند تھا ، کر بلا و قضا ئے خدا پر انسان کی رضا کا مر کز تجلی ہے ، آپ زند گی کے آخر ی لحظوں میں اپنے مقتل میں فر ما تے ہیں : الٰہی رضاً بقضا ئک بہن نے بھی یہی کہا تھا :ارضی بقضاء اللّٰہ ’’میں قضا ئے خدا پر راضی ہوں ‘‘ عرفا ن کی یہ منزل کہ جہاں سالک اپنے آپ کو کچھ نہ دیکھے صر ف خدا کو دیکھے اور خدا وند کی پسند کے مقابل کوئی پسند نہ رکھتا ہو ، سیدا لشہدا ء نے مکہ سے کوفہ کی طرف سفر شرو ع کرتے وقت بھی ایک خطبہ میں فر ما یا تھا ـ :
رضا اللّٰہ رضانا اہل البیتؑ (۵)
’’ہم اہل بیت کی پسند بھی وہی ہے جو ہمارے خدا کی پسند ہے ‘‘
یہ حسین علیہ السلام کے ایثا ر اور عشق کی منز ل ہے اور ثا نی زہراءؑ اسے خو بصور ت دیکھتی ہیں اورا س انداز فکر کو سرا ہتی ہیں ۔
آن روز کہہ جان خود فدا می کردیم
چون منطق ما منطق عا شورا بود
با خون بہ حسین اقتدا می کردیم
با نفی (خود) اثبات (خدا) می کردیم(۶)
’’جس دن ہم جا ن فدا کر رہے تھے ، اپنے خو ن کے ساتھ حسین کی اقتداء کر رہے تھے ، چونکہ ہما ری سو چ عا شورا ئی تھی ،ہم اپنی نفی کے ساتھ خدا کے وجود کو ثا بت کر رہے تھے‘‘
۳)حق و باطل کا رسم الخط
عاشورہ کی خو بصورتیوں میں سے ایک اور خو بصورتی حق وباطل کے در میا ن لکیر کا کھینچنا تھا تاکہ شیطا ن صفت انسا ن اور فرشتہ خُوانسان کے کر دا ر جدا جدا ہو جا ئیں ۔
جب نیکی وبدی اور حق و با طل مل جا تے ہیں تو با طل کی تا ریکی حق کے چہر ے کو ڈھانپ لیتی ہے ،اس طرح کی تا ریک آبا دی میں لو گوں کے افکا ر و نظر یا ت میں انحرا ف ایک قد رتی سی بات ہے، کفر نقا ب کے ساتھ ہو تو عا م سا دہ لو ح مسلمان اشتبا ہ کا شکا ر ہوسکتے ہیں ۔
امام حسینؑ کے کام کی خوبصو رتی یہ تھی کہ آپ نے چر اغ جلا دیا تا کہ رو شن تاریکیوں کوختم کر دے اور جھو ٹ و فر یب واضح ہو کر پہچا نے جا ئیں اورفر یب و نقا ب کا
(۶)موسوعۃ کلمات الامام الحسین ، ص ۳۲۸
(۷)از نویسندہ
امام حسینؑ کے کام کی خوبصو رتی یہ تھی کہ آپ نے چر اغ جلا دیا تا کہ رو شن تاریکیوں کوختم کر دے اور جھو ٹ و فر یب واضح ہو کر پہچا نے جا ئیں اورفر یب و نقا ب کا اب کوئی اثر باقی نہ رہے ، کیا یہ خو بصورت تر ین نہیں ہے؟
عاشورہ ایک طرز تحر یر تھا ،ایسا رو شن خط جس نے حق و باطل کو جدا کر دیا ، جس نے خالص مسلمان کی مسلمان نما مد عی اسلام سے الگ پہچا ن کر وا دی ، رحما ن کے پیرو کار شیطان کے چیلوں سے الگ تھلگ نظر آنے لگے ، حق آشکارہو کر با طل کے مقابل آگیا، باطل بھی ظاہر و بے نقاب ہو کر کربلا میں لشکر لے آیا تھا ،دھو کے کے لئے ’’یا خیل اللّٰہ ارکبی ‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا، اگر کسی کو حق کی پہچا ن میں کمی رہ گئی تھی تو ثا نی زہرا ء کے کوفہ و شام میں خطبوں نے وہ بھی ختم کردی،یہ کربلا کے خو نی واقعہ کی اہم ترین خوبصورتی ہے۔
۴) خا لص فتح کا ظہور
عا شورہ کی ایک خو بصورتی فتح کا نیا مفہو م ہے،بعض لوگ غلطی سے کا میابی و فتح صرف ظاہری جنگ کی کامیا بی میں سمجھتے تھے اور مظلو میت و شہا دت کو شکست سمجھتے تھے، عاشورہ نے ثا بت کر دیا کہ اوج مظلو میت میں بھی فاتح ہو ا جا سکتا ہے اور قتل ہو کر بھی فتح و کامیابی کی تحریر لکھی جا سکتی ہے ، خون کے سا تھ بھی ظفر و فتح مند ی کے جھنڈے گا ڑ ے جاسکتے ہیں ۔ پس کربلا کی جنگ میں فاتح حسینؑ بن علیؑ تھے کیاخوبصورت فتح ہے ۔ اسے تلوار پرخون کی فتح’’ پیروزی ٔ خون بر شمشیر‘‘کہتے ہیں ۔ امام خمینیؒ اس کی طرف ا شا رہ فرماتے رہے کہ:
ملتی کہ شہادت برای اوسعادت پیروز است
مادرکشتہ شدن و کشتن پیر و ز یم ۔(۷)
’’جس قوم کے لئے شہادت سعا دت ہو ،وہی ملت کا میاب ہے، ہم قتل ہو ں یا قتل کریں ،ہم ہی کامیاب ہیں ‘‘
یہ وہی قرآن کی تعلیم ہے کہ جسے’’ احدی الحسنین ‘‘کہا گیا ہے یہ انہی جنگجو ؤں کا شعارہو تا ہے جنہیں دو اچھا ئیوں میں سے کوئی ایک مل جا ئے شہادت یا مخالف کو مارنا، جس شخص نے اپنے وظیفہ و شرعی ذمہ دا ری پر عمل کیا ہو وہ ہر حالت میں کامیاب ہے وہ بھی خالص کامیابی
گرچہ از داغ لالہ می سو زیم
چون بہ تکلیف خو د عمل کردیم
ما ھما ن سر بلند دیر و زیم
روز فتح و شکست پیر و زیم(۸)
یہ منطق اور فکر سیدا لشہد اء کی تھی ، ثا نی زہرا ءؑ کی تھی اور اما م زین العابدینؑکی تھی ، چونکہ ان تلخ حوادث کا نتیجہ اسلام اور حق کے لئے مفید تھا اس لئے جمیل و شیر یں تھا ، جب ابراہیم بن طلحہ نے اما م زین العا بدینؑسے پوچھا، فتح کس کی ہوئی ؟تو آپ نے فر ما یا ، جب نماز کے وقت اذان و اقامہ کہی جا ئے گی تو تمہیں پتہ چل جا ئے گا کہ فتح کسے حاصل ہوئی ۔ (۹)کیا یہ چیز واقعہ کربلا میں خوبصورت و حسین نہیں ہے ؟ یعنی قتل ہو کر بھی کامیاب ہو جا نا
۵)مشیت خدا کے راستے پر چلنا
سب سے خو بصورت جلو ہ یہ ہے کہ انسا ن ایک حا دثہ و واقعہ کو مشیت خدا اور مرضی خدا کے مطا بق دیکھے ، اگر حسینؑ بن علیؑاور آپ کے ساتھی بستر خو ن پر سو گئے یا رسو ل ؐ کے گھر والے قید ہوگئے تو یہ با ت مشیت خدا میں لکھی جا چکی تھی اور اس سے بڑھ کر خوبصورتی اور کیا ہو گی کہ انسا ن کا کا م مشیت خدا کے دفتر سے ہم آہنگ ہو جا ئے۔
حسینؑ بن علی علیہ السلام کو ھا تف غیبی نے کہا تھا کہ خدا کی مشیت و ارادہ یہی ہے کہ تو اس کی راہ میں شہید ہو جا ئے ان اللّٰہ شاء ان یراک قتیلا اور یہ بھی مشیت خدا ہی تھی کہ دین اور انسان کی نجات و آزادی کے لئے عتر ت رسولؐ خدا قید و بند کی صعو بتیں برداشت کرے۔ ان اللّٰہ شا ء ان یراھن سبایایہ دو نوں کام دین کی بقا ء اور طاغوت کو رسو ا کرنے کے لئے ضروری تھے وہ بھی عشق و صبر اور دلیر ی کے ساتھ ۔
زینب عالیہ جو کہ دامن وحی اور مکتب علی علیہ السلام کی تر بیت شدہ تھیں ، ان کے لئے مشیت الٰہی کے مطا بق یہ سفر و نہضت انتہا ئی اعلیٰ اقدار و حسن کا مظہر تھی ، آپ اس نہضت کو
(۸)صحیفہ نور، ج۱۳، ص ۶۵
(۹)از نویسندہ
(۱۰) اما لی ،شیخ طوسی، ص ۶۶
زینب عالیہ جو کہ دامن وحی اور مکتب علی علیہ السلام کی تر بیت شدہ تھیں ، ان کے لئے مشیت الٰہی کے مطا بق یہ سفر و نہضت انتہا ئی اعلیٰ اقدار و حسن کا مظہر تھی ، آپ اس نہضت کو آغا ز سے انجا م تک خو بصورت و جمیل دیکھتی ہیں کیونکہ آپ کو اس سفر کا قدم قدم مشیت الٰہی کے مطا بق نظر آرہا تھا، عاشورہ پر اس طرح نظر کر نا کیاخو بصورت نہیں ؟
۶)شب قدر عاشورہ
یہ منظر عاشورہ کے روشن تر ین جلووں میں سے ایک خو بصورت جلو ہ ہے ، جو جا نے یا نہ جانے کے حوالے سے تر دّد کا شکا ر ہو کر جا نے کو ایثا ر و وفا کے عنو ان سے انتخاب کرلیں اور حسینؑ کے بغیر زند گی کو ذلت و موت شما رکرتے ہیں ـ۔
شب عا شورہ اما م حسینؑ کا خطبہ اور جا نے کی اجا زت دینا ، سا تھیوں کی گفتگو ، امام کا شہزادہ قا سم سے سوا ل ، اصحا ب کی سحر تک شب بیدا ری ، تلا وت قرآن اور دعا و مناجات کی آواز یں اور اصحا ب کا ثا نی زہر اء کے خیمے کے باہر آکر وفا داری کا اعلا ن، ان میں سے ہر ایک ا س خو بصورت کتا ب کا سنہر ی ور ق ہے ، پھر کیوں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا عاشورہ کو خو بصورت نہ سمجھے ۔
جو کچھ کربلاء میں ہوا وہ قیا مت تک کے لئے رو ئے زمین پر ہر جگہ ظلم کے ساتھ مقابلے کی اسا س و بنیا دبن گیا ، کیا یہ خو بصو رت نہیں ہے؟
عا شو رہ کا ہر ہر لحظہ ایک مکتب بن گیا جوانسا ن کو آزادی ، وفا ، ایثار، مردانگی، ایمان، شجاعت، شہادت اور ، بصیرت کا در س دیتا ہے ، کیا یہ خو بصورت نہیں ؟ اس صحرا کی ریت پر جوپا ک خو ن گرے یہ ایک سیلا ب بن گئے جنہوں نے کا خ ظلم کی بنیا دوں کو نا بو د کر دیا ، کیا یہ خو بصورت نہیں ہے؟
ھر بسا طی را کہ عمر ی شامیان گستردہ بود
نیم روزی این حسین بن علی بر چید و رفت(۱۰)
’’شا میوں نے جو بساط بچھا نے میں ایک عمر لگا دی تھی ، حسینؑ بن علیؑ نے آدھے دن میں لپیٹ دی‘‘
کو فہ و شا م کے حا د ثے ایجا د کر نے والوں نے سمجھا کہ حسینؑو اصحا ب حسینؑ کے قتل سے ان کی بنیا د یں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مضبو ط ہو جائیں گی، لیکن ثا نی زہرا ء کی گہر ی نگا ہ میں انہوں نے اپنی قبریں کھودیں تھیں ، اہل بیتؑ کے نو را نی چہر ے اور روشن ہو گئے ،ان کا نا م زند ہ وجاوید ہو گیا ، دین خدا کو زند گی مل گئی اور کر بلا ایک دا نش گا ہ بن گئی ، ثا نی زہر ا ء اس سب سے وا قف تھیں آپ نے یہ نتیجہ صد یوں پہلے دیکھ لیا تھا ، یہی وجہ تھی کہ والی کوفہ نے جب زخم زبان لگا تے ہو ئے طعنہ زنی کی کہ اے بنت علیؑ تونے دیکھ لیا خدا نے تمہارے بھائی اور تمہارے خا ندان کے ساتھ کیا کیا’’تو آپؑ نے فرمایا مارا ٔیت الا جمیلا میں نے سوا ئے خو بصور تی کے اور کچھ نہیں دیکھا ۔