Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، یقینا آج (دنیا ) عمل کا دن ہے، جس میں حساب نہیں جبکہ کل (آخرت کے دن) حساب ہے عمل نہیں غررالحکم حدیث11000،بحارالانوار ج70 باب 96کتاب الایمان والکفر،تتمہابواب الکفر ومساوی الاخلاق

نہج البلاغہ خطبات

اس میں اہل بصرہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں فتنوں سے آگاہ کیا ہے۔

جو شخص ان فتنہ انگیزیوں ) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھہرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں انشاء اللہ تمہیں جنت کی راہ پر لگا دوں گا۔ اگرچہ وہ سفر کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لیے ہوئے ہے۔ رہیں ۱ فلاں تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آگئی ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں ۔اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کرتیں ۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔

اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے : (ایمان کی راہ سب راہوں سے واضح اور سب چراغوں سے زیادہ نورانی ہے۔ ایمان سے نیکیوں سے استدلال کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے ایمان پر دلیل لائی جاتی ہے‘ ایمان سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اور علم کی بدولت موت سے ڈرا جاتا ہے اور موت سے دنیا کے سارے جھنجھٹ ختم ہوجاتے ہیں اور دنیا سے آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ مخلوقات کیلئے قیامت سے ادھر کوئی منزل نہیں ۔ وہ اسی کے میدان میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ لگانے والی ہے۔

اس خظبہ کا ایک جز یہ ہے : وہ اپنی قبروں کے ٹھکانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخرت کے ٹھکانوں کی طرف پلٹ پڑے‘ ہر گھر کے لیے اس کےاہل ہیں کہ نہ وہ اسے تبدیل کرسکیں گے اور نہ اس سے منتقل ہوسکیں گے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں نہ ان کی وجہ سے موت قبل از وقت آسکتی ہے اور نہ جو رزق مقرر ہے اس میں کوئی کمی ہوسکتی ہے۔ تمہیں کتاب خدا پر عمل کرنا چاہیے اس لیے کہ وہ ایک مضبوط رسی روشن و واضح نور‘ نفع بخش شفا‘ پیاس بجھانے والی سیرابی‘ تمسک کرنے والے کیلئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کیلئے نجات ہے- اس میں خجی نہیں آتی کہ اسے سیدھا کیا جائے نہ حق سے الگ ہوتی ہے کہ اس کا رخ موڑآ جائے۔ کثرت سے دھرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے پرانا نہیں کرتا جو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لے جانے والا ہے۔

(اسی اثناء میں ) ایک شخض کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ ہمیں فتنہ کے بارے میں کچھ بتائیے اور کیا آپ نے اس کے متعلق رسول اللہ سے دریافت کیا تھا! آپ نے فرمایا کہ ہاں جب اللہ نے یہ آیت اتاری کہ ”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہےکہ ان کے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ فتنون سے دوچار نہیں ہوں گے‘ تو میں سمجھ گیا کہ فتنہ ہم پر تو نہیں آئے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں چنانچہ میں نے کہا‘ یا رسول اللہ! یہ فتنہ کیا ہے کہ جس کی اللہ نے آپ کو خبر دی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اے علی! میرے بعد میری امت جلدی فتنوں میں پڑ جائے گی۔ تو میں نے کہا یا رسول اللہ (احد کے دن جب شہید ہونے والے مسلمان شہید ہوچکے تھے اور شہادت مجھ سے روک لی گئی اور یہ مجھ پر گراں گزرا تھا تو آپ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ تمہیں بشارت ہو کہ شہادت تمہیں پیش آنے والی ہے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ یونہی ہو کر رہے گا۔ (یہ کہو) کہ اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہوگی تو میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ اللہ یہ صبر کا کوئی موقع نہیں ہے‘ یہ تو (میرے لیے) مژدہ اور شکر کا مقام ہوگا۔ تو آپ نے فرمایا کہ یاعلی حقیقت یہ ہے کہ لوگ میرے بعد مال و دولت کی وجہ سے فتنوں میں پڑ جائے گے اور دین اختیار کرلینے سے اللہ پر احسان جتائیں گے۔ اس کی رحمت کی آرزوئیں تو کریں گے لیکن اس کے قہر و غلبہ (کی گرفت) سے بے خوف ہوجائیں گے کہ جھوٹ موٹ کے شبھوں اور غافل کر دینے والی خواہشوں کی وجہ سے حلال کو حرام کرلیں گے‘ شراب کو انگور و خرما کا پانی کہہ کر اور رشوت کانام ہدیہ رکھ کر اور سود کو خرید و فروخت قرار دے کر جائز سمجھ لیں گے (پھر) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ میں انہیں اسموقع پر کس مرتبہ پر سمجھوں اس مرتبہ پر کہ وہ مرتد ہوگئے ہیں یا اس مرتبہ پر کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں تو آپ نے فرمایا کہ فتنہ کے مرتبہ پر۔

۱# اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرتر عائشہ کا روایہ امیرالمومنین سے ہمیشہ معاندانہ رہا اور اکثر ان کے دل کی کدورت ان کے چہرے پر کھل جاتی اور طرز عمل سے نفرت و بیزاری جھلک اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر کسی واقعہ کے سلسلہ میں حضرت کا نام آجاتا تو ان کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تھا اور اس کا زبان پر لانا بھی گوارا نہ تھیں ۔ چنانچہ عبیداللہ ابن عبداللہ نے حضرت عائشہ کی روایت کا کہ پیغمبر حالت مرض میں فضل ابن عباس اور ایک دوسرے شخض کا سہارا لے کر ان کے ہاں چلے آئے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا۔

کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا شخض کون تھا اس نے کہا کہ نہیں کہ وہ علی ابن ابی طالب تھے مگر حضرت عائشہ کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ علی کا کسی اچھائی کے ساتھ ذکر کرتیں ۔

اس نفرت و عناد کا ایک سبب حضرت فاطمہ الزہراء کا وجود تھا کہ جن کی ہمہ گیر عظمت و توقیر ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور سوتاپے کی جلن یہ گوارا نہ کرسکتی تھی کہ پیغمبر سوت کی دختر کو اس طرح چاہیں کہ اسے دیکھتے ہی تعظیم کیلئے کھڑے ہوجائیں اور اپنی مسند پر جگہ دیں اور سیدة نسائی العالمین کہہ کر دنیا جہاں کی عورتوں پر اس کی فوقیت ظاہر کریں اور اس کی اولاد کو اس حد تک دوست رکھیں کہ انہیں اپنا فرزند کہہ کر پکاریں ۔ یہ تمام چیزیں ان پر شاق گزرنے والی تھیں اور فطری طور پر ان کے جذبات اس موقع پر یہی ہوں گے کہ اگر خود ان کے بطن سے اولاد ہوتی تو وہ پیغمبر کے بیٹے کہلاتے اور بجائے حسن و حسین کے وہ ان کی محبت کا مرکز بنتے مگر ان کی گود اولاد سے ہمیشہ خالی رہی اور ماں بننے کی آرزو کو اپنے بھانجے کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھ کر پورا کرلیا۔ غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے ان کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیاجس کے تقاضے سے مجبور ہوکر جناب سیدہ کے خلاف شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھیں ۔ مگر پیغمبر کی توجہات ان سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔ اس رنجش و کشیدگی کا تذکرہ حضرت ابوبکر کے کانوں میں بھی برابر پہنچتا رہتا تھا۔ جس سے وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے مگر ان کے کئے بھی کچھ نہ ہوسکتا تھا سوا اس کے کہ ان کی زبانی ہمدردیاں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی تھیں ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرم نے دنیا سے رحلت فرمائی اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی۔ اب موقع تھا کہ وہ جس طرح چاہتے انتقام لیتے اور جو تشدد چاہتے روا رکھتے۔ چنانچہ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ جناب سیدہ کو محروم الارث قرار دینے کیلئے پیغمبروں کے ورثہ کی نفی کر دی کہ نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا ترکہ حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے سیدہ اس حد تک متاثر ہوئیں کہ ان سے ترک کلام کر دیا اور انہی تاثرات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر بھی اپنی روش نہ بدلی اور یہ تک گوارا نہ کیا۔ ان کے انتقال پر ملال پر افسوس کا اظہار کرتیں ۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ

جب حضرت فاطمة الزہراء[ع]نے رحلت فرمائی تو تمام ازواج پیغمبر بنی ہاشم کے ہاں تعزیت کیلئے پہنچ گئیں سوا عائشہ کے کہ وہ نہ آئیں اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مریض ہیں اور حضرت علی تک ان کی طرف سے ایسے الفاظ پہنچے جن سے ان کی مسرت و شادمانی کا پتہ چلتا تھا۔

جب جناب سیدہ سے اس حد تک عناد تھا تو جن سے ان کا دامن وابستہ ہوگا وہ کس طرح ان کی دشمنی و عناد سے بچ سکتا ہے جب کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہوں کہ جو اس مخالفت کو ہوا دیتے اور ان کے جذبہ نفرت کو ابھارتے ہوں جیسے واقعہ افک کے سلسلہ میں امیرالمومنین کا پیغمبر سے یہ کہنا کہ ان ہی الاشسع نعلک۔ یہ تو آپ کی جوتی کا تسمہ ہے“ اسے چھوڑئیے اور طلاق دے کر الگ کیجئے- جب حضرت عائشہ نے یہ سنا ہوگا تو یقینا بے قرار کے بستر پر کروٹیں بدلی ہوں گی اور حضرت کے خلاف جذبہ نفرت انتہائی شدت سے ابھرا ہوگا۔ پھر ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے کہ ان کے والد حصرت ابوبکر کے مقابلہ میں حضرت کو امتیاز دیا گیا اور ان کے مدارج کو بلند اور نمایاں کرکے دکھایا گیا۔ جیسے تبلیغ سورئہ برات کے سلسلہ میں پیغمبر کا انہیں معزول کرکے واپس پلٹا لینا اور یہ خدمت حضرت علی ۺ کے سپرد کر نا اور یہ فرمانا کہ ”انی امرت ان ابلغہ۔ انا او رجل من اھل بیتی“ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود سے پہنچاؤں یا وہ شخص جو میرے اہلبیت میں سے ہو اسی طرح مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے کہ جن میں حضرت ابوبکر کے گھر کا بھی دروازہ تھا چنوا دئیے اور صرف امیرالمومنین[ع]کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔

حضرت عائشہ اپنے باپ کے مقابلہ میں حضرت کا تفوق گوارا نہ کرسکتی تھیں اور جب کوئی امتیازی صورت پیداہوتی تھی تو اسے مٹانے کی کوشش اٹھا نہ رکھتی تھیں ۔ چنانچہ جب پیغمبر نے آخر وقت میں حضرت اسامہ کے ہمراہ لشکر روانہ کیا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو بھی ان کی زیر امارت جانے کا حکم دیا تو ازواج پیغمبر کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ پیغمبر کی حالت نازک ہے۔ لشکر کو آگے بڑھنے کے بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ چونکہ ان دور رس نظروں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مدینہ کو مہاجرین و انصار سے خالی کرنے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ رحلت نبی کے بعد امیرالمومنین[ع]سے کوئی مزاحم نہ ہو اور کسی شورش انگیزی کے بغیر آپ منصب خلافت پر فائز ہوجائیں ۔ چنانچہ لشکر اسامہ اس پیغام پر پلٹ آیا۔ جب پیغمبر نے یہ دیکھا تو اسامہ کو پھر لشکر لے جانے کی تاکید فرمائی اور یہ تک فرمایا لعن اللہ علی من تخلف عن جیش اسامة جو شخض لشکر اسامہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو۔ جس پر وہ پھر روانہ ہوئے مگر پھر انہیں واپس بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر کے مرض نے شدت اختیار کرلی اور لشکر کو روانہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اس کاروائی کے بعد بلال کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ امامت نماز کے فرائض سرانجام دیں تاکہ ان کی خلافت کیلئے راستہ ہموار ہوجائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انہیں خلیفة رسول اللہ علی الصلواة کہہ کر علی الاطلاق مان لیا گیا اور پھر ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح خلافت امیرالمومنین[ع]تک نہ پہنچ سکے لیکن دور ثالث کے بعد حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ حضڑت عائشہ اس موقع پر مکہ میں تشریف فرما تھیں انہیں جب حضرت کی بیعت کا علم ہوا تو ان کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے۔ غیظ و غضب نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی اور نفرت نے ایسی شدت اختیار کرلی کہ جس خون کے بہانے کا فتویٰ دے چکی تھیں ۔ اسی کے قصاص کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں ایسا کشت و خون ہوا کہ بصرہ کی سرزمین کشتوں کے خون سے رنگین ہوگئی۔ اور افتراق انگیزی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھل گیا۔

خطبہ 154: عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت