Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جسے نیکیاں خوش کردیں اور برائیاں غمگین کریں وہ مومن ہوتا ہے۔ اصول کافی باب المومن و علاماتہ حدیث6

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 163: مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر

قدرت نے ہر قسم کی مخلوق کو‘ وہ جاندار ہو یا بے جان ساکن ہو یا متحرک‘ عجیب و غریب آفرینش کا جامہ پہنا کر ایجاد کیا ہے اور اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت پر ایسی واضح نشانیاں شاہد بنا کر قائم کی ہیں کہ جن کے سامنے عقلیں اس کی ہستی کا اعتراف اور اس کی (فرمانبرداری) کا اقرار کرتے ہوئے سر اطاعت خم کرچکی ہیں اور اس کی یکتائی پر یہی عقل کی تسلیم کی ہوئی اور (اس کے خالق بے مثال ہونے پر) مختلف شکل و صورت کے پرندوں کی آفرینش سے ابھری ہوئی دلیلیں ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں ۔ وہ پرندے جن کو اس نے زمین کے گڑھوں دروں کے شگافوں اور مضبوط پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسایا ہے جو مختلف طرح کے پروبال اور جداگانہ شکل و صورت والے ہیں ۔ جنہیں تسلط (الہٰی) کی باگ ڈور میں گھمایا پھرایا جاتا ہے اور جو کشادہ ہوا کی وسعتوں اور کھلی فضاؤں میں پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں ۔ انہیں جبکہ یہ موجود نہ تھے عجیب و غریب ظاہری صورتوں سے (آراستہ کرکے) پیدا کیا اور (گوشت و پوست میں ) ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے (جسموں کی) ساخت قائم کی۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں ان کے جسموں کے بوجھل ہونے کی وجہ سے فضا میں بلند ہو کر تیز پروازی سے روک دیا ہے اور انہیں ایسا بنایا ہے کہ وہ زمین سے کچھ تھوڑے ہی اونچے ہوکر پرواز کرسکیں ۔ اس نی اپنی لطیف قدرت اور باریک صنعت سے ان قسم قسم کے پرندوں کو (مختلف) رنگوں سے ترتیب دیا ہے- چنانچہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ایک ہی رنگ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ یوں کہ جس رنگ میں انہیں ڈبو دیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں ۔ ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے کہ (اللہ نے) جس کے (اعضاء کو) موزونیت کے محکم ترین سانچے میں ڈھالا ہے اور اس کے رنگوں کو ایک حسین ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ یہ (حسن و توازن) ایسے پروں سے ہے کہ جن کی جڑوں کو (ایک دوسرے سے) جوڑ دیا ہے اور ایسی دم سے ہی جو دور تک کھنچتی چلی جاتی ہے جب وہ اپنی مادہ کی طرف بڑھتا ہے تو اپنی لپٹی ہوئی دم کو پھیلا دیتا ہے اور اسے اس طرح اونچا لے جاتا ہے کہ وہ اس کے سر پر سایہ افگن ہوکر پھیل جاتی ہے۔ گویا وہ (مقام) دارین کیاس کشتی کا بادبان ہے جسے اس کا ملاح ادھر ادھر موڑ رہا ہو۔ وہ اس کے رنگوں پر اتراتا ہے اور اس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور مرغوں کی طرح جفتی کھاتا ہے اور (اپنی مادہ کو) حاملہ کرنے کیلئے جوش و ہیجان میں بھرے ہوئے نروں کی طرح جوڑ کھاتا ہے۔ میں اس (بیان) کیلئے مشاہدہ کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں ۔ اس شخص کی طرح نہیں کہتا جو کسی کمزور سند کا حوالہ دے رہا ہو۔ گمان کرنے والوں کا یہ صرف وہم و گمان ہے کہ وہا پنے گوشہ ہائے چشم کی بہائے ہوئے اس آنسو سے اپنی مادہ کو انڈوں پر لاتا ہے کہ جو اس کی پلکوں کے دونوں کناروں میں میں آکر ٹھہر جاتا ہے اور مورنی اسے پی لیتی ہے اور پھر وہ انڈے دینے لگتی ہے۔ اور اس پھوٹ کر نکلنے والے آنسو کے علاوہ یوں نر اس سے جفتی نہیں کھاتا۔ اگر ایسا ہو تو بھی (ان کے خیال کے مطابق) کوے کے اپنی مادہ کو (پوٹے سے دانا پانی) بھرا کر انڈوں پر لانے سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے (تم اگر بغور دیکھو گے) تو اس کے پروں کی درمیانی تیلیوں کو چاندی کی سلائیاں تصور کرو گے اوران پر جو عجیب و غریب ہالے بنے ہوئے ہیں اور سورج (کی شعاعوں ) کے مانند (جو پروبال) اگے ہوئے ہیں (انہیں زردی میں ) خالص سونا اور (سبزی میں ) زمرد کے ٹکڑے خیال کرو گے‘ اگر تم اسے زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے تشبیہہ دو گے تو یہ کہو گے کہ وہ ہر موسم بہار کے چنے ہوئے شگوفوں کا گلدستہ ہے اور اگر کپڑوں سے تشبیہہ دو گے تو وہ منقش حلول یا خوشنما یمنی چادروں کے مانند ہے اور اگر زیوراتگ سے تشبیہہ دو گے تو وہ رنگ برنگ کے ان نگینوں کی طرح ہے جو مرصع بجواہر چاندی میں دائروں کی صورت میں پھیلا دئیے گئے ہوں وہ اس طرح چلتا ہے جس طرح کوئی ہشاش بشاش اور متکبر محو خرام ہوتا ہے اور اپنی دم اور پروبال کو غور سے دیکھتا ہے تو اپنے پیراہن کے حسن و جمال اور اپنے گلوبند کی رنگتوں کی وجہ سے قہقہہ لگا کر ہنستا ہے مگر جب اپنے پیروں پر نظر ڈالتا ہے تو اس طرح اونچی آواز سے روتا ہے کہ گویا اپنی فریاد کو ظاہر کر رہا ہے اور اپنے سچے درد (دل) کی گواہی دے رہا ہے۔ کیونکہ اس کے پیر خاکستری رنگ کے دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح باریک اور پتلے ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارے پرایک باریک سا کانٹا نمایاں ہوتا ہے اور اس کی (گردن پر) ایال کی جگہ سبز رنگ کے منقش پروں کا گچھا ہوتا ہے اور گردن کا پھیلاؤ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے صراحی (کی گردن) اور اس کے گڑنے کی جگہ سے لے کر وہاں تک کا حصہ کہ جہاں اس کا پیٹ ہے یمنی دسمہ کے رنگ کی طرح (گہرا سبز) ہے یا اس ریشم کی طرح ہے جو صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنا دیا گیا ہو۔ گویا کہ وہ سیاہ رنگ کیاوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن اس کی آب و تاب کی فراوانی اور چمک دمک کی بہتات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس میں تروتازہ سبزی کی (الگ سے) آمیزش کر دی گئی ہے اس کے کانوں کے شگاف سے ملی ہوئی بابونہ کے پھولوں جیسی ایک سفید چمکیلی لکیر ہوتی ہے۔ جو قلم کی باریک نوک کے مانند ہے وہ (لکیر) اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہیوں میں جگمگاتی ہے۔ کم ہی ایسے رنگ ہوں گے جس نے سفید دھاری کا کچھ حصہ نہ لیا ہو اور وہ ان رنگوں پر اپنی آب و تاب کی زیادتی اپنے پیکر ریشمیں کی چمک دمک اور زیبائش کی وجہ سے چھائی ہوئی ہے۔ وہ ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہے کہ جنہیں نہ فصل بہار کی بارشوں نے پروان چڑھایا ہو اور نہ گرمیوں کے سورج نے پرورش کیا ہو‘ وہ کبھی اپنے پروبال سے برہنہ اور اپنے رنگین لباس سے عریاں ہو جاتا ہے۔ اس کے بال و پر لگاتار جھڑتے ہیں اور پھر پے درپے اگنے لگتے ہیں ۔ وہ اس کے بازوؤں سے اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح ٹہنیوں سے پتے۔ یہاں تک کہ جھڑنے سے پہلے جو شکل و صورت تھی اسی کی طرف پلٹ آتا ہے اور اپنے پہلے رنگوں سے سر مو ادھر سے ادھر نہیں ہوتا اور نہ کوئی رنگ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ اختیار کرتا ہے۔ جب اس کے پروں کے ریشوں میں سے کسی ریشے کو تم غور سے دیکھو گے تو وہ تمہیں کبھی گلاب کے پھولوں جیسی سرخی اور کبھی زمرد جیسی سبزی اور کبھی سونے جیسی زردی کی (جھلکیاں ) دکھائیے گا (غور تو کرو کہ) ایک ایسی مخلوق کی صفتوں تک فکروں کی گہرائیاں کیوں کر پہنچ سکتی ہیں یا عقلوں کی طبع آزمائیاں کس طرح وہاں تک رسائی پاسکتی ہیں ۔ یا بیان کرنے والوں کے کلمات کیوں کر اس کے وصفوں کو ترتیب دے سکتے ہیں کہ جس کے چھوٹے سے چھوٹے جز نے واہموں کو سمجھنے سے عاجز اور زبانوں کو بیان کرنے سے درماندہ کر دیا ہو‘ تو پاک ہے۔ وہ ذات کہ جس نے ایک ایسی مخلوق کی حالت بیان کرنے سے بھی عقلوں کو مغلوب کر رکھا ہے کہ جسے آنکھوں کے سامنے نمایاں کر دیا تھا اور ان آنکھوں نے اس کو ایک حد میں گھرا ہوا اور (اجزاء) سے مرکب اور (مختلف رنگوں سے) رنگین صورت میں دیکھ بھی لیا اور جس نے زبانوں کو اس (مخلوق) کے وصفوں کا خلاصہ کرنے سے عاجز اور اس کی صفتوں کے بیان کرنے سے درماندہ کر دیا ہے اور پاک ہے وہ خدا کہ جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مخلوق مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم کیا ہے اور اپنی ذات پر لازم کرلیا ہے کہ کوئی پیکر کہ جس میں اس نی روح داخل کی ہے۔ جنبش نہیں کھائے گا مگر یہ کہ موت کو اس کی وعدہ گاہ اور فنا کو اس کی حد آخر قرار دے گا۔

اس خطبہ کا یہ حصہ جنت کے بیان میں ہے۔ اگر تم دیدہ دل سے جنت کی ان کیفیتوں پر نظر کرو جو تم سے بیان کی جاتی ہیں تو تمہارا نفس دنیا میں پیش کی ہوئی عمدہ سے عمدہ خواہشوں اور لذتوں اور اس کے مناظر کی زیبائشوں سے نفرت کرنے لگے گا اور وہ ان درختوں کے پتوں کے کھڑکھڑانے کی آوازوں میں کہ جن کی جڑین جنت کی نہروں کے کناروں پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں کھو جائے گا اور ان کی بڑی اور چھوٹی ٹہنیوں میں تروتازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے (نظاروں ) میں محو ہو جائے گا۔ ایسے پھل کہ جو بغیر کسی زحمت کے چنے جاسکتے ہیں اور چننے والے کی خواہش کے مطابق آگے بڑھ آتے ہیں وہاں کے بلند ایوانوں کے صحنوں میں اترنے والے مہمانوں کے گرد پاک صاف شہد اور صاف ستھری شراب (کے جام) گردش میں لائے جائیں گے وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ کی بخشش و عنایت ہمیشہ ان کے شامل حال رہی یہاں تک کہ وہ اپنی جائے قیام میں اتر پڑے اور سفروں کی نقل و حرکت سے آسودہ ہوگئے- اے سننے والے اگر تو ان دلکش مناظر تک پہنچنے کیلئے اپنے نفس کو متوجہ کرے جو تیری طرف ایک دم آنے والے ہیں تو اس کے اشتیاق میں تیری جان ہی نکل جائے گی اور اسے جلد سے جلد اپ لینے کیلئے میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ‘ اپنی رحمت سے ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جو نیک بندوں کی منزل تک پہنچنے کی (سرتوڑ) کوشش کرتے ہیں ۔

سید رضی اس خطبہ کے بعص مشکل الفاظ کی توضیح و تشریح کے سلسلہ مین فرماتے ہیں کہ آپ کے ارشاد یئور بملاقحة میں لفظ ار سے مباشرت کی طرف کنایہ ہے۔ یوں کہا جاتا ہے کہ ارالمراة یورھا یعنی اس نے عورت سے مباشرت کی اور آپ کے اس ارشاد کا نہ قلع داری عنجہ نوتیہ میں قلع کے معنی کشتی کے بادبان کے ہیں اور لفظ داری‘ دارین کی طرف منسوب ہے اور دارین سمندر کے کنارے ایک شہر کا نام ہے کہ جہاں سے خوشبو دار چیزیں لائی جاتی ہیں اور عنجہ کے معنی ہیں اس کو موڑا اور استعمال یوں ہوتا ہے عنجت الناقة (عنجت بروزن نصرت) یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑا اور اعنجھا عنجا اس وقت کہو گے کہ جب تم اس کے رخ کو موڑو گے اور نوتی کے معنی ملاح کے ہیں اور آپ کے ارشاد ضفتی جفونہ سے مراد مور کی پلکوں کے دونوں کنارے ہیں اور یوں ضفتان کے معنی دو کناروں کے ہوتے ہیں اور آپ کے قول فلذا لزبرجد میں فلذ فلذة کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑے کے ہیں اور آپ کے قول کبائس اللئو لئوا الرطب میں کبائس کباسہ کی جمع ہے جس کے معنی کھجور کے خوشے کے ہیں اور عسالیج عسلوج کی جمع ہے جس کے معنی ٹہنی کے ہیں ۔

۱# مور ایک خوبصورت دلکش اور انتہائی چوکنا رہنے والا پرندہ ہے جو برما‘ جاوا‘ ہندو پاکستان اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں پایا جاتا ہے اس کے پروں کی رنگینی دم کا پھیلاؤ اور رقص انتہائی جاذب نظر ہوتا ہے جب یہ اپنی دم کو جو ۵ ۵ انچ سے ۷۲ انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ پھیلا کر چکر کاٹتا ہے تو نظروں میں مختلف رنگوں کی دنیا آباد ہو جاتی ہے جس طرح خزاں میں درختوں کے پتے جھڑتے اور بہار میں اگتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے پر خزاں میں جھڑجاتے ہیں اور بہارمیں دوبارہ اگ آتے ہیں ۔ بہار کا موسم اس کے حسن کے نکھار کا زمانہ ہوتا ہے۔ اسی موسم میں جوڑ کھاتا ہے مورنی تین سال کی عمر سے انڈے دینے لگتی ہے اور اس کی اوسط عمر پینتیس برس ہوتی ہے ایک سال میں کم و بیش بارہ انڈے دیتی اور ایک مہینہ تک انہیں سیتی ہے۔ مور اکثر انڈوں کو توڑ دیتا ہے۔ اس لیے اس کے انڈے مرغی کے نیچے بھی بٹھا دئیے جاتے ہیں مگر مرغی کے سینے سے بچوں کی خوبصورتی اور جسمانی ہیئت میں فرق آجاتا ہے۔ مور اپنی دلکشی و خوبصورتی کے باوجود منحوس تصور ہوتا ہے اور گھروں میں رکھنا برا سمجھا جاتا ہے۔