Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، جھوٹی آرزوئیں، دھوکہ باز، فریب کار اور مضر ہوتی ہیں غررالحکم حدیث1145

نہج البلاغہ خطبات

مجھے تو کبھی بھی حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہیں جا سکا ہے ۔ میں اپنے پروردگار کے کٹے ہوئے وعدئہ نصرت پر مطمئن ہوں ۔ خدا کی قسم وہ خون عثمان کا بدلہ لینے کے لیے کھنچی ہوئی تلوار کی طرح اس لیے اٹھ کھڑ ا ہوا ہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اسی سے ان کے خون کا مطالبہ نہ ہونے لگے ۔ کیوں کہ (لوگوں کا) ظن غالب اس کے متعلق یہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ (قتل کرنے والی) جماعت میں اس سے بڑھ کر ان کے خون کا پیاسا ایک بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے خون کا عوض لینے کے سلسلے میں جو فوجیں فراہم کی ہیں اس سے یہ چاہا ہے کہ لوگوں کو مغالطہ دے تاکہ حقیقت مشتبہ ہو جائے اور اس میں شک پڑ جائے خدا کی قسم! اس نے عثمان کے معاملہ میں ان تین باتوں میں سے ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا۔ اگر ابن (۱) عفان جیسا کہ اس کا خیال تھا ظالم تھے تو (ا س صورت میں ) اسے چاہئے تھا کہ ان کے قاتلوں کی مدد کرتا یا ان کے مدد گاروں سے علٰیحدگی اختیار کر لیتا اور اگر وہ مظلوم تھے تو اس صورت میں اس کے لیے مناسب تھا کہ ان کے قتل سے روکنے والوں اور ان کی طرف سے عذرو معذرت کرنے والوں میں ہوتا اور اگر ان دونوں باتوں میں اسے شبہہ تھا تو اس صورت میں اسے یہ چاہئے تھا کہ ان سے کنارہ کش ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا ( کہ وہ جانیں ) اور ان کا کام) لیکن اس نے ان باتوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا اور ایک ایسی بات کو لے کر سامنے آگیا ہے کہ جس کی صحت کی کوئی صورت ہی نہیں اور نہ اس کو کوئی عذر درست ہے ۔

(۱)مطلب یہ ہے کہ اگر طلحہ حضرت عثمان کو ظالم سمجھتے تھے تو ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے قاتلوں سے آمادہ قصاص ہونے کے بجائے ان کی مدد کرنا چاہیئے تھی اور ان کے اس اقدام کو صحیح و درست قرار دینا چاہئے تھا ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ظالم ہونے کی صورت میں محاصرہ کرنے والوں کی ان کی مدد کرنا چاہیئے تھی ۔ کیونکہ ان کی مدد و ہمت افزائی تو وہ کرتے ہی رہے تھے ۔

خطبہ 172: طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں فرمایا