اسلامی تعلیمات

باب 3 - آداب و ثواب تلاوت قرآن مجید

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری الہامی کتاب ہے۔ یہ مقدس کتاب دوسری تمام کتابوں سے ممتاز ہے جس کی تلاوت کے مخصوص آداب اور اصول ہیں۔ ضروری ہے کہ تلاوت کرتے وقت ان آداب کا حتی الامکان لحاظ کیا جائے تاکہ کتاب اللہ کا احترام ملحوظ خاطر رہے اور قرآن مجید کی تلاوت کا مقصد اور ہدف بھی حاصل کیا جا سکے۔

قرآن مجید کی تلاوت کے دوران مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔

1۔ طہارت: قرآن مجید کی تلاوت ہمیشہ طہارت کے ساتھ کریں یعنی جسم اور لباس وغیرہ پاک ہو۔ نیز وضو کر کے تلاوت قرآن کریں۔ وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔

2۔ قبلہ: بہتر ہے کہ تلاوت قرآن قبلہ رو ہو کر کی جائے۔

3۔ مسواک: حدیث میں ہے کہ مسواک کر کے قرآن پڑھا جائے تاکہ منہ سے بد بو نہ آئے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

نظفوا طریق القرآن، قیل: یا رسول اللہ! وما طریق القرآن ؟ قال: افواہکم۔ قیل: بما ذا؟ قال: بالسواک۔ (بحارالانوار،ج89، ص213)

قرآن کریم کے رستوں کو صاف ستھرا رکھو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! قرآن کے رستے کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارے دہن (منہ)۔ پوچھا گیا: انہیں کس طرح صاف رکھیں؟ فرمایا: مسواک کے ذریعے۔

4۔ خوشبو: تلاوت قرآن سے قبل خوشبو لگانا یا ماحول کو معطر کرنا مستحب ہے۔ البتہ خاتون کا اس طرح خوشبو لگانا حرام ہے کہ نامحرم کو محسوس ہو۔

5۔ دعا: قرآن کی تلاوت سے قبل دعا کرنا اور تلاوت ختم کر کے دعا کرنا مستحب ہے۔

استعاذہ : تلاوت قرآن سے قبل استعاذہ یعنی اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم ۔ (میں اللہ کی پناہ مانگتا /مانگتی ہوں شیطان مردود سے) پڑھنا چاہیے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

أغلقوا ابواب المعصیۃ بالاستعاذہ ۔ یعنی تلاوت قرآن سے قبل ’’ أعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ‘‘ پڑھ کر گناہوں کے دروازے بند کر لو۔ (بحارالانوار ج89، ص216)

بسم اللّٰہ : شیطان پر لعنت کے بعد’’ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ‘‘ پڑھنی چاہیے۔ بلکہ ہر کام کا آغاز بسم اللّٰہ سے کرنا چاہیے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام جب کبھی کسی آیت سے استدلال کرتے تھے تو آیت پڑھنے سے پہلے ’’ أعوذباللّٰہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرَحیم ‘‘ ضرور پڑھتے تھے اس کے بعد کسی بھی آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔) بحارالانوار ج89، ص210)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

افتحوا ابواب الطاعۃ بالتسمیۃ۔ (بحارالانوار،ج89، ص216)

تسمیہ ( بسم اللّٰہ ) سے اطاعت کے دروازے کھول دو۔

8۔ ترتیل: قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ اتنی رفتار سے پڑھنا کہ جس سے کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ کیا پڑھ رہے ہیں قرآن کی توہین ہے۔

9۔ تجوید: قرآن کو صحیح پڑھنے کے طریقے کو تجوید کہتے ہیں۔ صحیح تلاوت کے لیے تجوید سیکھنا اور اپنے مخارج (تلفظ) کو درست کرنا بھی ضروری ہے۔

10۔ لحن: قرآن کو اچھے لحن اور دلنشین آواز میں پڑھنا چاہیے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد ہے:

زینو االقرآن باصواتکم۔ (سنن دارمی ج2)

یعنی قرآن مجید کو اپنی آوازوں سے آراستہ اور مزین کرو۔

ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ان لکل شئیٍ حلیۃ، وحلیۃ القرآن الصوتُ الحسن۔ (بحارالانوار،ج89،ص190)

ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے اور قرآن مجید کی زینت اچھی آوازہے۔

11۔ تلاوت قرآن کی جگہ: قرآن مجید کی تلاوت کے لیے بہتر سے بہتر جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ بیت الخلاء یا حمام جیسی جگہوں پر تلاوت قرآن کرنا آداب قرآن کے منافی ہے۔ احادیث میں گھروں کے اندر تلاوت قرآن کے اہتمام کے بے شمار فوائد ذکر ہوئے ہیں۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

یعنی اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے نورانی بناؤ اور یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح انہیں (یعنی اپنے گھروں کو ) قبر نہ بنا ڈالو۔ یہودی اور عیسائی اپنے گرجا گھروں اور اپنی عبادت گاہوں میں نماز پڑھتے تھے اور گھروں میں کوئی عبادت نہیں کرتے تھے۔ جان لو! کہ گھر میں جتنی زیادہ تلاوت قرآن کی جائے گی اس کے لیے اتنی ہی بھلائی ہو گی اور اس سے اہل خانہ کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی اور وہ گھر اہل آسمان کو اسی طرح چمکتا دکھائی دے گا جس طرح اہل زمین پر ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ (اصول کافی،ج2،ص610)

12۔ تواضع اور حزن: جب قرآن مجید اچھی قرائت اور لحن سے پڑھنا آجائے تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کو دلسوز آواز کے ساتھ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اتلوا القرآن وابکوا، فان لم تبکوافتباکوا۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث4196)

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت گریہ کیا کرو اور اگر گریہ نہیں شکر سکتے تو رونے والی شکل بناؤ۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

مامِن عینٍ فاضت مِن قرائۃ القرآن الا قرّت یوم القیامۃ۔ (کنزالعمّال، حدیث2824)

یعنی جو آنکھ بھی تلاوت قرآن مجید سے اشکبار ہو گی وہ روز قیامت پر سکون رہے گی۔

13۔ توجہ اور تدبر: تلاوت قرآن کے وقت پوری توجہ قرآن کے مطالب پر ہونی چاہیے اور اس میں غور و فکر کرنی چاہیے کیونکہ تلاوت قرآن کا اصل مقصد اس کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾ (سورہ محمد 24)

کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگے ہیں؟

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ألا لا خیرَ فی قرأئۃٍ لا تدبّر فیہ۔ (بحارالانوار، ج89، ص210)

یعنی یاد رکھو جس قرائت میں تدبر نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

14۔ استماع: جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سننا چاہیے اور کوئی اور بات نہیں کرنی چاہیے۔

15۔ تلاوت کی کم سے کم مقدار: ویسے تو قرآن مجید کی جتنی زیادہ تلاوت کی جائے اتنا ہی بہتر ہے لیکن امام جعفر صادقؑ سے مروی روایت کے مطابق ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر روز کم از کم قرآن کی پچاس آیات کی تلاوت کیا کرے۔ (اصول کافی،ج2، ص609)

16۔ رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔