عقیدہ رجعت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو اس وقت خداوند کریم بعض انبیاء، اماموں اور بعض مؤمنین کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا تاکہ آئمہؑ اور انبیاء کے قاتلوں اور ظالموں سے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بدلہ لیا جائے۔ اس عقیدہ کا اقرار کرنا ضروری اور واجب ہے اور اس کے بارے میں بہت ساری آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل کی گئی ہیں:
لَیْسَ مِنّا مَنْ لَمْ یُقِرْ بِرِجْعَتِنا۔
جو شخص ہماری رجعت کا اقرار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
رجعت کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مظلوموں کو اسی دنیا میں انصاف مل جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین پر کمزور کر دئیے گئے ہیں احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں اور وارث قرار دیں۔
تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ جس قدر کمزور و ناتواں ہمارے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو سمجھا گیا ہے اتنا کسی اور شخص کو نہیں سمجھا گیا ہے۔
پس جو خدا نے کمزور و ناتواں کو زمین کا وارث بنانے کا وعدہ کیا ہے وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور خدا اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ خدا کا یہ وعدہ رجعت کے ذریعے پورا ہو گا۔
اور جس روز ہم امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں۔
پس قیامت کے دن کو تمام لوگوں کو محشور کیا جائے گا لیکن اس آیت میں خدا فرماتا ہے۔ کہ ہر امت سے ایک جماعت کو ہم محشور کریں گے پس وہ دن رجعت کا دن ہو گا۔ عقلی طور پر بھی یہ چیز ناممکن نہیں ہے کیونکہ ایک مثالی دور آئے گا کہ جب سرکار آل محمد علیہ السلام کی الٰہی سلطنت قائم ہو گی اور کفر و شرک مٹ جائے گا۔ اسلام کا بول بالا ہو گا اور ایسے تمام ادیان عالم پر غلبہ ہو گا۔ اس وقت شیعیان علیؑ و موالیان آل عباؑ کی آنکھیں یہ ایمان افزاء مناظر دیکھ کر ٹھنڈی ہوں گی اور اسلام کی سربلندی کا ایک شاندار نمونہ قائم ہو گا۔ خدا کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے اور خدا کی قدرت میں یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔
بہت ساری روایات موجود ہیں کہ جن میں امام حسینؑ اور امیرالمؤمنینؑ کی رجعت کا کہا گیا ہے۔ لیکن رجعت کی تفصیل میں کہ کون کون سے انبیاء آئیں گے کتنے امام آئیں گے۔ کون سے مؤمنین آئیں گے اور کیا نظام ہو گا۔ ان ساری تفصیلات میں اختلاف ہے بس اجمالا یہ جاننا اور یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ رجعت ہو گی اور کچھ آئمہؑ اور انبیاءؑ و مؤمنین کو دوبارہ بھیجا جائے گا۔
اسلامی تعلیمات
تعارف
اسلامی تعلیمات
انتساب
اپنی بات
تمہید
تقریظ
قرآنیات
کورس کا تعارف اور اہداف
قرآن مجید کا تعارف
فضائل قرآن بزبان قرآن
فضائل قرآن بزبان معصوم
آداب تلاوت قرآن مجید
ثوابِ تلاوت قران مجید
جمع قرآن
عدم تحریف قرآن
قرآن مجید کی جاذبیت
انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
قرآنی چیلنج
انسان کی خلقت
عمل اور ردعمل
قرآن اور حیوانیات - Zoology
قرآن اور حیوانیات - Zoology 2
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ
قصہ آنے والے دن کا
قصہ آنے والے دن کا (2)
قرآن مجید دعوت فکر
اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)
خدا پسند تمنائیں
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
عقائد
کورس کا تعارف اور اہداف
اصول دین
اثبات وجود خدا
خدا کی صفات اور توحید
توحید خدا پر دلائل
توحید کی اقسام
تجسیم خدا
عدل
قسمت کا کھیل
نبوت
معجزہ
قرآن مجید اور آسمانی کتابیں
امامت
محبت اہل بیت علیہم السلام
عقیدہ توسل
شفاعت
مہدویت
رجعت
قیامت
حساب و کتاب
تقیہ
اخلاقیات
کورس کا تعارف اور اہداف
اخلاق
جھوٹ
دوسروں کے مال کا استعمال
نخوت و تکبر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ایک مفید ملاقات
غصہ اور گالی گلوچ
دعا
حسد
ضیاع وقت
مؤمن کی اہانت
ملاقات مؤمن حصہ اول
ملاقات مؤمن حصہ دوم
ضیافت و زیارت
صلہ رحمی و قطع رحمی
قطع رحمی
بخل و اسراف
بخل
اسراف
دوستی
احترام والدین
حقوق والدین
بری صحبت
موسیقی
احکام
کورس کا تعارف اور اہداف
احکام خمسہ
تقلید
نجاسات
مطہرات
وضو
وضو کی شرائط
واجب غسل
طریقہ غسل و تیمم
واجب نمازیں
واجبات نماز
مکروہات نماز
روزہ
احکام میت
نمار میت کا طریقہ
نماز جمعہ، نماز آیات، نماز عیدین
نگاہ
مسجد
کھانا کھانے کے آداب
سونے اور رفع حاجت کے آداب
بیت الخلاء کے احکام
تجوید کے احکام
تعریف اور حرکات
لحن
مخارج 1
مخارج 2
مخارج 3
صفات
نون ساکن اور تنوین کے احکام
میم ساکن کے احکام
سکون
وقف کے احکام
باب 17 - رجعت
عقیدہ رجعت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو اس وقت خداوند کریم بعض انبیاء، اماموں اور بعض مؤمنین کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا تاکہ آئمہؑ اور انبیاء کے قاتلوں اور ظالموں سے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بدلہ لیا جائے۔ اس عقیدہ کا اقرار کرنا ضروری اور واجب ہے اور اس کے بارے میں بہت ساری آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل کی گئی ہیں:
لَیْسَ مِنّا مَنْ لَمْ یُقِرْ بِرِجْعَتِنا۔
جو شخص ہماری رجعت کا اقرار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
رجعت کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مظلوموں کو اسی دنیا میں انصاف مل جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ (سورہ القصص:5)
اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین پر کمزور کر دئیے گئے ہیں احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں اور وارث قرار دیں۔
تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ جس قدر کمزور و ناتواں ہمارے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو سمجھا گیا ہے اتنا کسی اور شخص کو نہیں سمجھا گیا ہے۔
پس جو خدا نے کمزور و ناتواں کو زمین کا وارث بنانے کا وعدہ کیا ہے وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور خدا اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ خدا کا یہ وعدہ رجعت کے ذریعے پورا ہو گا۔
قرآن میں ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰالِحُوْنَ (سورہ انبیاء:105)
اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت سے کہ جو کہ رجعت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے۔:
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰاتِنَا فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ (سورہ النمل،83)
اور جس روز ہم امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں۔
پس قیامت کے دن کو تمام لوگوں کو محشور کیا جائے گا لیکن اس آیت میں خدا فرماتا ہے۔ کہ ہر امت سے ایک جماعت کو ہم محشور کریں گے پس وہ دن رجعت کا دن ہو گا۔ عقلی طور پر بھی یہ چیز ناممکن نہیں ہے کیونکہ ایک مثالی دور آئے گا کہ جب سرکار آل محمد علیہ السلام کی الٰہی سلطنت قائم ہو گی اور کفر و شرک مٹ جائے گا۔ اسلام کا بول بالا ہو گا اور ایسے تمام ادیان عالم پر غلبہ ہو گا۔ اس وقت شیعیان علیؑ و موالیان آل عباؑ کی آنکھیں یہ ایمان افزاء مناظر دیکھ کر ٹھنڈی ہوں گی اور اسلام کی سربلندی کا ایک شاندار نمونہ قائم ہو گا۔ خدا کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے اور خدا کی قدرت میں یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔
بہت ساری روایات موجود ہیں کہ جن میں امام حسینؑ اور امیرالمؤمنینؑ کی رجعت کا کہا گیا ہے۔ لیکن رجعت کی تفصیل میں کہ کون کون سے انبیاء آئیں گے کتنے امام آئیں گے۔ کون سے مؤمنین آئیں گے اور کیا نظام ہو گا۔ ان ساری تفصیلات میں اختلاف ہے بس اجمالا یہ جاننا اور یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ رجعت ہو گی اور کچھ آئمہؑ اور انبیاءؑ و مؤمنین کو دوبارہ بھیجا جائے گا۔