اسلامی تعلیمات

باب 17 - رجعت

عقیدہ رجعت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو اس وقت خداوند کریم بعض انبیاء، اماموں اور بعض مؤمنین کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا تاکہ آئمہؑ اور انبیاء کے قاتلوں اور ظالموں سے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بدلہ لیا جائے۔ اس عقیدہ کا اقرار کرنا ضروری اور واجب ہے اور اس کے بارے میں بہت ساری آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل کی گئی ہیں:

لَیْسَ مِنّا مَنْ لَمْ یُقِرْ بِرِجْعَتِنا۔

جو شخص ہماری رجعت کا اقرار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

رجعت کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مظلوموں کو اسی دنیا میں انصاف مل جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ (سورہ القصص:5)

اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین پر کمزور کر دئیے گئے ہیں احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں اور وارث قرار دیں۔

تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ جس قدر کمزور و ناتواں ہمارے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو سمجھا گیا ہے اتنا کسی اور شخص کو نہیں سمجھا گیا ہے۔

پس جو خدا نے کمزور و ناتواں کو زمین کا وارث بنانے کا وعدہ کیا ہے وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور خدا اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ خدا کا یہ وعدہ رجعت کے ذریعے پورا ہو گا۔

قرآن میں ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰالِحُوْنَ (سورہ انبیاء:105)

اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت سے کہ جو کہ رجعت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے۔:

وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰاتِنَا فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ (سورہ النمل،83)

اور جس روز ہم امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں۔

پس قیامت کے دن کو تمام لوگوں کو محشور کیا جائے گا لیکن اس آیت میں خدا فرماتا ہے۔ کہ ہر امت سے ایک جماعت کو ہم محشور کریں گے پس وہ دن رجعت کا دن ہو گا۔ عقلی طور پر بھی یہ چیز ناممکن نہیں ہے کیونکہ ایک مثالی دور آئے گا کہ جب سرکار آل محمد علیہ السلام کی الٰہی سلطنت قائم ہو گی اور کفر و شرک مٹ جائے گا۔ اسلام کا بول بالا ہو گا اور ایسے تمام ادیان عالم پر غلبہ ہو گا۔ اس وقت شیعیان علیؑ و موالیان آل عباؑ کی آنکھیں یہ ایمان افزاء مناظر دیکھ کر ٹھنڈی ہوں گی اور اسلام کی سربلندی کا ایک شاندار نمونہ قائم ہو گا۔ خدا کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے اور خدا کی قدرت میں یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔

بہت ساری روایات موجود ہیں کہ جن میں امام حسینؑ اور امیرالمؤمنینؑ کی رجعت کا کہا گیا ہے۔ لیکن رجعت کی تفصیل میں کہ کون کون سے انبیاء آئیں گے کتنے امام آئیں گے۔ کون سے مؤمنین آئیں گے اور کیا نظام ہو گا۔ ان ساری تفصیلات میں اختلاف ہے بس اجمالا یہ جاننا اور یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ رجعت ہو گی اور کچھ آئمہؑ اور انبیاءؑ و مؤمنین کو دوبارہ بھیجا جائے گا۔