اسلامی تعلیمات

باب 2 - جھوٹ

شریعت اسلام میں جہاں بھی انسان کو کسی غیر اخلاقی عمل سے اجتناب کا حکم دی اگیا ہے تو اس عمل میں حکمِ الٰہی کی تعمیل کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنا بھی کوئی نہ کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے اور اس عمل کی مخالفت کی صورت میں جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے وہیں پر اس دنیا میں بھی اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کی برائی سب پر واضح اور عیاں ہے اور اس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں اپنا مقام و اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ جھوٹ ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ جس کو تمام آسمانی شریعتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے حتی کہ ایسے لوگ جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی اس کو برا سمجھتے ہیں۔

تعریف

ایسی خبر دینا یا کسی کو ایسی بات بتانا جو صحیح نہ ہو جھوٹ کہلاتی ہے۔

جھوٹ بولنا، جھوٹ لکھنا، اور جھوٹے اشخاص کی باتوں پر کان دھرنا حرام ہے۔ جس طرح معاشرہ اس برائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح خدواند کریم کی نظر میں بھی جھوٹے لوگوں کی کوئی عزت و منزلت نہیں ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْر۔ (سورہ حج:30)

پس تم لوگ بتوں کی پلیدگی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔

ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہے:

اِنَمَّا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ۔ (سورہ النحل:105)

جھوٹ تو وہی لوگ بولتے ہیں جو خداوند کریم کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔

اگر ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں جھوٹ اور جھوٹے شخص کی مذمت میں بے شمار احادیث ملتی ہیں کہ جن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معصومین علیہم السلام اس قبیح عمل سے بالکل ہی راضی نہیں ہیں جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تیرا بھائی تجھ سے سچ بولے اور تو اس سے جھوٹ بولے۔

اسی طرح امام محمد باقر ؑسے مروی ہے کہ:

جھوٹ ایمان کی بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے۔

اور امام حسن عسکریؑ سے منقول ہے کہ:

تمام برائیاں اگر ایک گھر میں ہوں تو اس کی چابی جھوٹ ہوگی۔

جھوٹا شخص کمزور ایمان اور خیانت کار ہوتا ہے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ: مسلمان کو اس آدمی سے باز رہنا چاہیئے جو اکثر جھوٹ بولتا ہو کیونکہ جھوٹا آدمی اعتبار کھو دیتا ہے اور اگر کبھی وہ سچ (بھی) بولے گا تو کوئی اس کا اعتبار نہیں کرے گا۔

جھوٹ کے اسباب

مختلف روایات احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں ان وجوہات میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

1۔ انسان میں نقص کا ہونا یعنی جھوٹ وہی بولتا ہے جس کی ذات میں کوئی نقص پایا جاتا ہو۔

2۔بری صحبت اور برے اجتماعات میں شمولیت انسان کو جھوٹ پر آمادہ کرتی ہے۔

3۔ جھوٹ کی عاقبت و نقصان سے جاہل ہونے کی وجہ سے بھی انسان جھوٹ بولتا ہے۔

نقصانات

جہاں جھوٹے شخص کو آخرت میں عذاب الہٰی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہاں وہ اس دنیا میں بھی بہت سی مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرے گا۔ جن میں سے چند ایک نقصانات حسبِ ذیل ہیں:

1۔ دنیا میں وہ ذلیل و خوار ہو گا اور اسے ہر مقام پر ندامت اٹھانی پڑے گی۔

2۔ اس کا ایمان کمزور ہو گا۔

3۔ اس کے رزق میں کمی ہو گی۔

4۔ اس کا رعب و ہیبت ختم ہو جائے گا۔

5۔اللہ تعالیٰ جھوٹے شخص کو ہدایت کی نعمت سے محروم فرما دیتا ہے۔

6۔جھوٹا شخص اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

7۔جھوٹ کی وجہ سے انسان کئی دیگر گناہوں میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس سے اُسے دہرے عذاب کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔

ایسے مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے

البتہ روایات میں چندا یسے موارد کا ذکر ملتا ہے کہ جہاں پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔

1۔ جنگ میں دشمن کو غافل کرنے کے لیے

2 ۔ دو مؤمن بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے کے لیے

3۔ بیوی کا دل رکھنے کے لیے کسی چیز کا وعدہ کرنا اگرچہ اس چیز کے دینے کی نیت نہ ہو۔

4۔ایسا مقام کہ جہاں جان، مال یا عزت کو خوف لاحق ہو تو اس ضرورت کے تحت جھوٹ بولنا جائز ہے۔

جھوٹی قسم

جھوٹ گناہانِ کبیرہ میں سے ہے مگر گناہ کے عذاب میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے مثلاً اگر ہم کسی گلی میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں تو اس کا عذاب کچھ اور ہو گا اور اگر ہم وہی جھوٹ مسجد میں جا کر بولیں تو اس کا عقاب اُس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔

قرآن کریم میں اس کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِاللّٰہِ وَاَیْمَانِھِم ْثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰئِکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِم ْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَایُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم۔ (سورہ آل عمران:77)

بے شک وہ لوگ جو خدا سے کیے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کو قلیل رقم کے عوض فروخت کرتے ہیں اُن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا اللہ اُن سے کلام نہیں کرے گا اور اُن کی طرف نگاہِ رحمت نہیں کرے گا اور اُنہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور اُن کے لیے درناک عذاب ہے۔

روایات معصومینؑ میں بھی جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی گواہی دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے جیسا کہ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ:

جو کوئی جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کی جھوٹی قسم کھائے گا گو یا وہ خدا سے جنگ کرے گا۔

اسی طرح ایسی گواہی دینا کہ جس کی حقیقت معلوم نہ ہو جھوٹی گواہی کہلاتی ہے اور یہ بھی گناہ کبیرہ ہے اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔

علاج

جھوٹ کا علاج یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان اس گناہ کی خباثت کے بارے میں آگاہی حاصل کرے اور اس کو معمولی بات سمجھ کر اس سے بے اعتنائی نہ برتے مثلا کوئی شخص آپ کے گھر میں آپ کو ملنے آئے اور آپ گھر میں ہوتے ہوئے اس کو یہ پیغام بھجوائیں کہ آپ گھر میں نہیں ہیں تو یہ جھوٹ ہے اور اس طرح کے روزمرہ کے موارد میں جھوٹ سے بچنا چاہیئے تاکہ کہیں اس طرح یہ قبیح عمل ہماری عادت نہ بن جائے۔