اسلامی تعلیمات

باب 5 - امر بالمعروف و نہی عن المنکر

خالق کائنات نے انسان کو خلق کرنے کے بعد اس کو اسی طرح فضول اس دنیا میں نہیں چھوڑا بلکہ اس کو اس دار ابتلاء میں زندگی گزارنے کے لیے بہترین نظام حیات بھی عطا کیا ہے۔ اور اس طریقہ حیات کو بتانے کے لیے اس نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ اس کے بتائے ہوئے راستے کو احسن انداز سے اس کے بندوں تک پہنچایا جا سکے۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے بعد یہ سلسلہ ان کے اوصیاء کے ذریعہ جاری رکھا اور اس کے علاوہ امت محمدیؐ کے ہر فرد کے لیے بھی یہ ضروری قرار دیا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود اس طریقہ و روش الٰہی کو سمجھے اور پھر اس کے بعد دوسروں کو بھی اسلامی طرز حیات کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرے اسی عمل کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تعریف

’’امر بالمعروف‘‘یعنی نیکیوں (اچھے کاموں) کا حکم دینا اور ان کی تلقین کرنا ’’نہی عن المنکر‘‘ یعنی برائیوں (برے کاموں) سے روکنا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دین اسلام کے عظیم ترین واجبات میں سے ہیں جن کے ذریعے انسانی معاشرہ کی اصلاح ہوتی ہے۔ فساد کی جڑیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ تباہی سے محفوظ رہتا ہے۔

جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر۔ (ورہ آل عمران:110)

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے خلق کیا گیا ہے کہ معروف (نیکیوں) کا حکم دیتے ہو اور منکر (برائیوں) سے روکتے ہو۔

اور پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے لیے فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی سفارش کی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ یہ کام کرنے والے ہونے چاہئیں تاکہ تمہارا معاشرہ ایک الٰہی معاشرہ نظر آئے۔

چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر و اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (سورہ آل عمران:104)

تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔

آیات مجیدہ کی طرح بہت سی احادیث مبارکہ بھی اس الٰہی فریضے کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں اور کچھ روایات میں اس عمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ اور مصیبتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:

’’نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا پیغمبروں کی روش ہے اور صالحین کا راستہ ہے کہ جس کے ذریعے واجبات ادا ہوتے ہیں راستے پر امن ہو جاتے ہیں۔ تجارتیں بحال ہو جاتی ہیں۔ ظلم و ستم ختم ہو جاتا ہے زمین آباد ہو جاتی ہے۔ ظالموں سے انتقام لیا جاتا ہے اور امور منظم ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ

جس وقت میری امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دے تو اسے خدا کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔

ان آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے اس عظیم ترین واجبات کی وضاحت ہوتی ہے کہ جب کسی معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہوں تو اس کا سبب امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا نہ ہونا ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک خاص صنف (جیسے علماء) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ اس سلسلہ میں خدا کے واجب کیے ہوئے فریضہ کو پورا کریں۔

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے کہ نیکی کا حکم دینا یا برائی سے روکنا تب ممکن ہو گا کہ جب انسان خود نیکی اور برائی کی پہچان رکھتا ہو اسی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دو مراحل ہیں:

1۔ قلبی مرحلہ

یعنی ہر باایمان شخص کو چاہیے کہ وہ خود نیکیوں سے آشنا ہو اور ان سے مانوس ہو اور خود کو ان سے آراستہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ برائیوں کو بھی پہچانے، ان سے نفرت کرے اور دل میں ان سے بیزاری اختیار کرے۔ برائیوں کا یہ قلبی انکار ہی نہی عن المنکر ہے جو کہ ہر انسان پر واجب ہے۔ لہٰذا جب کوئی نیک کام انجام دیتا ہے تو خوشحال ہوتا ہے اور کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو رنجیدہ اور شرمندہ ہوتا ہے خود کی سرزنش کرتا ہے۔

اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’جو شخص نیک کام انجام دے کر خوش حال اور گناہ کا ارتکاب کرکے ناخوش ہو تو وہ مؤمن ہے‘‘

ایسا شخص اگر دوسروں کو نیکی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور اس سے مانوس ہوتا ہے اور اسے مبارک باد دیتا ہے۔ جب دوسروں سے ناپسندیدہ کام دیکھتا ہے تو غمگین ہوتا ہے اور اس فعل اور اس فعل کے انجام دینے والے سے ناراض ہوتا ہے اور اپنے دل میں اس سے بیزاری اختیار کرتا ہے۔

2۔عملی مرحلہ

یعنی ان افراد کے ساتھ عملی اقدام کرنا جو معروف کو ترک کرتے ہیں اور برے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں تاکہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے مؤثر قدم اٹھایا جائے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کا یہی مقصد ہے۔

مراتب

علماء نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے یہ تین مراتب ذکر کئے ہیں۔

1۔ نیکی کو ترک اور برائی پر عمل کرنے والے شخص سے قلبی اظہار ناپسندیدگی کرنا۔

2۔ زبان سے اظہار ناپسندیدگی کرنا۔

3۔ ہاتھ سے روکنا۔ یعنی جسمانی سزا دینا تاکہ گناہگار گناہ سے بچ جائے مگر یہ مرتبہ فقط عادل مجتہد کی اجازت پر موقوف ہے۔

شرائط:

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی چار شرطیں ہیں۔

1۔ ضروری ہے کہ نیکی کی دعوت دینے والا اور برائی سے روکنے والا یہ یقین رکھتا ہو کہ اس کا مخاطب جسے ترک کر رہا ہے وہ ضروریات دین میں سے ہے یعنی وہ ایسا کام ہے جس کے انجام دینے پر تمام مجتہدین متفق ہیں یا وہ عمل جسے بجا لا رہا ہے اس کے ترک کرنے کا سب نے کہا ہے۔

2۔ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کے اثر کا غالب گمان ہو اور اگر یقین ہو کہ مخاطب پر اس دعوت کا کوئی اثر نہیں ہو گا تو اس پر امر باالمعروف کرنا واجب نہیں ہے۔

3۔ نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنے والے شخص یا کسی اور مسلمان کو اس عمل سے ضرر یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔

4۔ نیکی کے ترک کرنے اور برائی کے انجام دینے پر وہ مصر ہو اور بار بار انجام دیتا ہو۔

اب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واضح ہو گئے اور اس کی اہمیت و ضرور ت بھی ہمارے لئے واضح ہو گئی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیسے انجام دیا جائے؟ تو جواب یقیناً یہ ہو گا کہ معصومینؑ کی سیرت ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ جیسے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا ایک واقعہ درج ذیل ہے۔

واقعہ:

ایک بوڑھا شخص وضو کرنے میں مصروف تھا لیکن وضو کو صحیح طور سے انجام نہیں دے رہا تھا۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ (جو اس وقت بچے تھے)نے اس بوڑھے کے غلط وضو کو دیکھا اور اس بوڑھے کی رہنمائی کے لیے اسے اس طرح دعوت دی کہ ہم میں سے ہر ایک آپ کے سامنے وضو کر رہا ہے اور آپ منصف کے طور پر فیصلہ دیں کہ ہم میں سے کس کا وضو درست ہے؟ بوڑھے نے دونوں بچوں کے وضو کو دیکھنے کے بعد کہا کہ کا آپ دونوں کا وضو صحیح ہے اور میرا وضو باطل ہے۔

ان دو حضرات کی یہ نمائش ایک ماہرانہ اور غیر مستقیم تربیت تھی جس میں بوڑھے کی عزت و آبرو کے تحفظ کا پورا خیا ل رکھا گیا تھا اور یہ طریقہ امربالمعروف کا بہترین طریقہ ہے۔