اسلامی تعلیمات

باب 7 - غصہ اور گالی گلوچ

انسان کی بری عادتوں میں سے کچھ ایسی عادات بھی ہیں کہ جو انسان کی قدر و قیمت کسی دوسرے کے سامنے آشکار کر دیتی ہیں۔ ویسے تو ہر بری عادت انسان کو پست بنا دیتی ہے لیکن کچھ ایسی عادتیں ہیں کہ جن کا مرتکب ہونے کے باوجود بھی انسان دوسروں کے سامنے اعلیٰ کردار کا حامل شخص کہلاتا ہے جیسے کہ وہ افعال قبیحہ کہ جن کو چھپ کر انجام دیا جائے تو لوگ اس سے آگاہ نہیں ہوتے لیکن غصہ اور گالی گلوچ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی ہیں۔ یہ فعل انسان کے فکری مقام کو واضح کر دیتا ہے۔ غصہ ایک آگ کے شعلے کی طرح ہے جو انسان کی حرارت و گرمی کو بڑھاتا ہے اور جس سے انسان کا خون کھولنے لگتا ہے اور اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے اس کے تمام امور غیر منظم ہو جاتے ہیں اور انسان فحش گوئی کرنے لگتا ہے اور اس کے ختم ہونے کے بعد انسان کو اکثر ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غصہ فقط کوئی وقتی بیماری نہیں ہے بلکہ آج کی میڈیکل سائنس نے اس کے دور رس مضر اثرات کو بھی بیان کیا ہے اور اس سے انسانی دل پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آج کل کی جدید سائنس کہتی ہے کہ زیادہ غصہ کرنے والے افراد زیادہ تر ہارٹ اٹیک کا شکار ہوتے ہیں۔ غصہ بذات خود بہت بری چیز ہے بلکہ بعض اوقات اس کے نتائج اس سے بھی برے ہوتے ہیں اور انسان فحش گوئی کا اظہار کرتا ہے اور بہت سے غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے تاہم غصہ کے انہیں برے نتائج کی وجہ سے معصومین علیہم السلام نے اس کی پر زور مذمت کی ہے اور بے شمار روایات میں اس سے اجتناب کرنے اور اس کے عواقب سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔

چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ

’’غصہ ایمان کو ایسے تباہ کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو فاسد کر دیتا ہے‘‘

اسی طرح منقول ہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام سے کسی نے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کے لیے مختصر ترین نصیحت چاہی تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’غصہ نہ کرو‘‘۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

غصہ شیطانی آگ کا ایک انگارہ ہے جو آدمی کے دل میں سلگتا ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کی آنتیں سرخ اور گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں اس دوران شیطان اس کے اندر داخل ہو جاتا ہے لہٰذا تم سے جب کسی کو غصہ آنے لگے تو وہ زمین پر بیٹھ جائے کیونکہ اس صورت میں شیطانی وسوسہ دور ہو جاتا ہے‘‘۔

نقصانات

غصہ بہت سے مضر اثرات رکھتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں غصہ کرنے والے کو سنگین نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

1۔ میڈیکل سائنس میں یہ بات مسلّم ہے کہ غصہ بہت سی سنگین بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔

2۔ غصہ کے وقت چونکہ انسان کا دماغ کام نہیں کر رہا ہوتا ہے اس وجہ سے وہ کچھ ایسے کام سر انجام دے بیٹھتا ہے کہ جس پر بعد میں پچھتاوے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا ہے۔

3۔ اس کی وجہ سے ایمان زائل ہو جاتا ہے۔

4۔ غصہ کی وجہ سے بہت سے دیگر گناہان کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے جیسے گالی گلوچ یا بعض دفعہ انسان قتل تک کر بیٹھتا ہے اور اس سے دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھاتا ہے۔

5۔ غصہ کی وجہ سے انسان کو اکثر شرمندگی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

علاج

علماء اخلاق نے اس کے علاج کے لیے چند نکات ذکر کیے ہیں:

1۔ جب غصہ آئے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور کہے ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم‘‘۔

2۔ غصہ کرنے والا جس حالت میں ہو اس حالت میں تبدیلی لائے۔ مثلاً بیٹھا ہے تو کھڑا ہو جائے اور اگر کھڑا ہے تو چل پڑے اور جب غصہ آئے تو خاموش ہو جائے۔

3۔ جب غصہ آئے تو وضو کرلے یا پانی پی لے کیونکہ اس سے انسان کی گرمی کم ہوتی ہے۔

4۔ انسان کو اس کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد کی طرف غور کرنا چاہیے کہ ایسے موارد سے بچنا چاہیے جو اس کو غصہ دلاتے ہوں۔

ایسے موارد جہاں غصہ کرنا بہتر ہے

روایات میں چند ایسے مقامات کا ذکر ملتا ہے کہ جہاں پر غصہ کرنا اور غضب دکھانا مستحسن اور اچھا عمل شمار کیا جاتا ہے وہ موارد درج ذیل ہیں:

1۔ دین کی حمایت کے لیے غصہ کرنا خصوصاً جب دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔

2۔ خدا اور سول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیہم السلام کے دشمنوں سے جنگ و جدال میں غصہ کرنا۔

3۔ کمینے اور فاسق و فاجر کی اصلاح کے لیے غصہ کرنا۔

4۔ برے کاموں کے ارتکاب کرنے والے پر غصہ کرنا جب وہ تمہارے غصہ سے برے کاموں سے رک جائے۔

گالی گلوچ

جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ گالی گلوچ اکثر طور پر غصہ کا نتیجہ ہوتا ہے اس قبیح عمل کے نتائج اس قدر برے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں اور ان کے معبودوں کو بھی گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًامبِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (سورہ انعام:108)

مشرکین کے خود ساختہ خداؤں کو گالیاں نہ دو، مبادا وہ نادانستگی میں تمہارے خدا کو گالی دیں۔

اسی طرح اگر ہم معصومین علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمیشہ انہوں نے دشمن کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے اور اگر کوئی دشمن آکر ان حضرات کو گالی دیتا بھی تھا تو خاموش ہو جاتے اور خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ گالی گلوچ کی مذمت میں بہت سی روایات منقول ہیں کہ جن میں سے بعض کو ذکر کرتے ہیں:

1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

مؤمن کو گالیاں دینا ہلاکت اور بدبختی کا پیش خیمہ ہے۔

2۔ ایک اور مقام پر آپؐ نے فرمایا کہ:

خبردار! لوگوں کو گالیاں نہ دو اس سے دشمنی جنم لیتی ہے۔

3۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

جس نے گالی میں ابتداء کی وہ بڑا ظالم ہے۔