اسلامی تعلیمات

باب 11 - مؤمن کی اہانت

خداوند متعال نے جہاں انسان کو خلق کرنے کے بعد اسے دیگر نعمات سے نوازا ہے وہاں اس کو تشخص و عزت کی دولت بھی عطا کی ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مؤمن کی بہت عزت و منزلت ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں اپنی اور اپنے رسول کی عزت کا تذکرہ کیا ہے وہیں پر مؤمن کا ذکر بھی کیا ہے:

وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سورہ منافقون:8)

عزت اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔

اور مؤمن کو یہ عزت کیوں نہ ملے جب اس کی سرپرستی اور سربراہی اللہ نے اپنے ذمے لی ہے۔

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ (سورہ بقرہ:257)

اللہ مؤمنین کا سرپرست ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو تمام مخلوقات سے بہتر قرار دیا اور ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰالِحٰاتِ اُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃ۔ِ (سورہ البیّنۃ:7)

جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں وہ تمام خلقت سے بہتر ہیں۔

اور یہ عزت و مقام کیوں نہ ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مؤمن کی خلقت کے بارے میں منقول ہے کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو اپنی جلالت اور قدرت کی عظمت سے پیدا کیا ہے‘‘۔

اس کے علاوہ دیگر کئی ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جن میں مؤمن کے احترام و عزت کو خانہ کعبہ کے مقام و مرتبہ سے بلند قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کسی مؤمن کی توہین کرنے کو گناہ کبیرہ میں سے شمار کیا گیا ہے اور اس کی کھلے لفظوں میں مذمت کی گئی ہے۔ روایات معصومینؑ میں مؤمن کی توہین کو اللہ تعالیٰ کی توہین شمار کیا گیا ہے۔

جیسا کہ رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ:

جو کوئی اس (مؤمن) کی توہین کرے یا اس کی بات کو ٹھکرائے تو اس نے اللہ کی توہین کی اور اللہ کے فرمان کو ٹھکرایا ہے۔

شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت سے امور کو توہین مؤمن شمار کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ مؤمن کی غیبت کرنا۔

2۔ مؤمن کی عیب جوئی کرنا۔

3۔ مؤمن کی سرزنش کرنا۔

4۔مؤمن کی آبرو ریزی کرنا۔

5۔ مؤمن کو حقیر سمجھنا۔

6۔ مؤمن کی بات کو توجہ نہ دینا۔

7۔ مؤمن کو گالی دینا۔

8۔ مؤمن کو برے القاب سے پکارنا۔

9۔ مؤمن پر تہمت لگانا۔

10۔ مؤمن کا مذاق اڑانا۔

11۔ ہر ایسا کام کرنا جس سے مؤمن کی توہین ہوتی ہو یا احترام میں کمی ہوتی ہو۔

یاد رہے ان تمام امور میں سے جو کام علیحدہ طور پر حرام شمار کیے جاتے ہیں ان امور کا گناہ کہیں زیادہ ہو جائے گا۔

معصومین علیہم السلام نے مؤمن کی عزت کے پیش نظر کسی مؤمن کو توہین سے بچانے کے لیے اس حرام عمل کے بہت بھیانک اثرات ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے ہم چند امور کو ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے:

1۔ مؤمن کی توہین، خداوند متعال کی توہین کا باعث بنتی ہے۔

2۔ اس حرام عمل کے نتیجے میں رشتہ ایمان ختم ہو جاتا ہے۔

3۔ اگر کوئی مؤمن سے دشمنی رکھے تو یہ اس کے کفر کا موجب بن سکتا ہے۔

4۔ توہین مؤمن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔

5۔ اس عمل کی وجہ سے انسان کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔

6۔ اس برے عمل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیشہ توہین کرنے والے کی توہین کراتا رہتا ہے۔

7۔ توہین مؤمن کی وجہ سے خدا کے غضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

8۔ جو دنیا میں کسی مؤمن کی توہین کرتا ہے خداوند متعال قیامت کے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے ذلیل کرے گا۔

اور یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ سب اثرات و نقصانات فقط ایک عام سے مؤمن بھائی کی توہین کرنے کے بیان ہوئے ہیں اسی طرح اگر وہ مؤمن زاہد، عابد یا پرہیزگار ہو تو اس کے گناہ اور عذاب میں بھی اضافہ ہو گا، اسی طرح اگر وہ مؤمن عالم یا دانشور ہو تو اس کی توہین کے نتیجے میں اس کے گناہ اور عقاب کی شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ مؤمنین میں سب سے افضل اور بہترین علماء کے طبقہ کو ہی شمار کیا گیا ہے۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین میں بھی اسی طرح ملتا ہے کہ نیک لوگوں میں سے بہترین لوگ نیک علماء ہیں۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ

’’جس نے عالم کا احترام کیا اس نے میرا احترام کیا اور جس نے عالم کی توہین کی اس نے میری توہین کی‘‘۔

مگر افسوس! کچھ ناسمجھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے علماء کو برا بھلا کہتے ہیں اور علم دوست احباب سے بھی کنارہ کشی کرتے ہیں شاید رسول اکرمؐ سے مروی یہ قول ہمارے ہی زمانے کے لیے ہے کہ ’’عنقریب میری امت پر وہ وقت آئے گا جب وہ علماء سے یوں بھاگیں گے جیسے بکری بھیڑیئے سے بھاگتی ہے‘‘۔

پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اسی پرا کتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کا نقصان بھی ذکر فرمایا کہ جب ایسا ہونے لگے کہ لوگ علماء کا احترام کھو بیٹھیں اور ان کی محفل سے دور رہنا شروع کر دیں تو خداوند کریم انہیں تین باتوں میں مبتلا کر دے گا۔

1۔ ان کے اموال سے برکت اٹھ جائے گی۔

2۔ ان پر ظالم حکمران مسلط ہو جائیں گے۔

3۔ جو ایسا کریں وہ بے دین ہو کر دنیا سے رخصت ہوں گے۔

پس اللہ تعالیٰ اور اس کے نمائندوں کے نزدیک مؤمن کا کتنا احترام ہے اور مؤمن کی توہین ہونے سے ان ہستیوں کو کتنی اذیت ہوتی ہے اس سب کو بیان کرنے کے لیے امام جعفر صادقؑ سے منقول صرف یہی ایک روایت ہی کافی ہے کہ:

جب کوئی مؤمن اپنے مؤمن بھائی کو ’’اُف‘‘ کہتا ہے تو ان کے درمیان ایمانی رشتہ منقطع ہو جاتا ہے اور اگر کوئی کسی مؤمن سے کہتا ہے کہ تو میرا دشمن ہے تو ان دونوں کے درمیان میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مؤمن بھائی کی آبرو برباد کرتا ہے اور اس کی توہین میں جلدی کرتا ہے تو خدا اس سے سخت نفرت کرتا ہے اور جو مؤمن بھائی کے لیے دل میں برائی کا ارادہ چھپائے ہوئے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔

پھر آپؑ سے مزید منقول ہے کہ:

اگر حجابات اٹھا دئے جائیں تو لوگوں کو خدا کے نزدیک مؤمن کا بہت بڑا مقام دکھائی دے گا جسے دیکھ کر ان کی گردنیں جھک جائیں گے اور لوگ مؤمن کی اطاعت کرنے لگ جائیں گے۔ اگر لوگ مسترد شدہ اعمال کو دیکھ لیں تو یہ کہنے لگ جائیں کہ خدا سرے سے کسی عمل کو قبول ہی نہیں کرتا۔

واقعہ

علی ابن یقطین امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ایک قابل اعتبار صحابی تھا اور امامؑ کی اجازت سے ہارون الرشید کا وزیر مقرر ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ ابراہیم جمال (جو کہ شیعہ تھا) دنیاوی تنگی کی وجہ سے علی سے ملنے گیا مگر علی نے اسے ملاقات کی اجازت نہ دی۔ اسی سال جب علی بن یقطین حج سے مشرف ہوا اور حج کے بعد مدینہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو حضرتؑ نے اسے ملاقات کے لیے وقت نہ دیا دوسرے دن علی نے گھر سے باہر امامؑ سے ملاقات کی اور اس بے اعتنائی کی وجہ پوچھی تو امامؑ نے اسے بتایا کہ کیونکہ تو نے اپنے بھائی ابراہیم جمال سے ملاقات نہیں کی اور اسے اپنے پاس نہیں آنے دیا اور خدا بھی انکار کرتا ہے کہ وہ تیری سعی کو قبول کرے مگر یہ کہ ابراہیم تجھے معاف کر دے۔

علی نے عرض کی کہ ابراہیم تو کوفہ میں ہے اور میں کیسے اس سے معذرت کروں تو امامؑ نے رات کے وقت اسے مختصر سے وقت میں کوفہ پہنچایا۔علی نے ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹایا، ابراہیم نے پوچھا کون ہے؟

اس نے کہا: میں ہوں علی بن یقطین۔

ابراہیم پریشان ہوا مگر علی نے اسے ساری بات سمجھائی اور معافی کا طلب گار ہوا۔

ابراہیم نے کہا: کہ خدا آپ کو معاف کرے۔

پس علی نے اپنا چہرہ زمین پر رکھا اور ابراہیم کو قسم دی کہ اپنا پاؤں میرے چہرے پر رکھو اور میرے چہرے کو اپنے پاؤں سے روندو۔ ابراہیم نے اپنا پاؤں علی کے چہرے پر رکھا اور اس کے چہرے کو اپنے پاؤں سے روندا تو علی نے کہا کہ ’’ اللھم اشھدہ ‘‘ یعنی خدایا! تو گواہ رہنا۔پس علی مکان سے باہر آیا اور پھر مختصر وقت میں مدینہ آ گیا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں جب اجازت چاہی تو اس وقت امامؑ نے اسے شرف ملاقات بخشا۔

لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کسی مؤمن کی توہین کرکے اپنے وقت کے امام صاحب العصر والزمانؑ کی ناراضگی مول نہ لیں۔