اسلامی تعلیمات

باب 12 - ملاقات مؤمن - حصہ اول

ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ و معصومینؑ کے نزدیک ایک مؤمن کی کیا اہمیت ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو اتنی اہمیت و فضیلت و عطا کی ہے وہیں پراس کے احترام و اکرام کا بھی حکم دیا ہے۔ چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے اسی لیے اسلام نے ہمیں مؤمن سے ملاقات کا سلیقہ بھی سکھایا ہے کہ کس طرح کسی مؤمن بھائی سے ملا جائے اور اس سے ملاقات کے وقت کن کن امور کو مدنظر رکھا جائے ہم اس سلسلے میں چند امور کو ذکر کریں گے۔

سلام

ہر قوم و معاشرہ کسی سے ملاقات کرتے وقت اپنے جذبات اور خوشی کا اظہار کرنے کے لیے گفتگو کے آغاز سے قبل کچھ خاص طریقے اپناتا ہے اور وہ لوگ مخصوص الفاظ استعمال کرتے ہیں اسلامی اخلاقیات اور رسم و رواج میں بھی اس کام کے لیے ایک دوسرے کو سلام کرنا، مصافحہ اور معانقہ (یعنی ایک دوسرے سے گلے ملنے) کا حکم دیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں اس حکم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ (سورہ نور:61)

جب تم کسی کے گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو اور اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر، اس طرح اللہ نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے شاید تم عقل سے کام لو۔

اسی طرح کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ سلام کرنا اس کے منتخب انبیاء و مرسلین کا شیوہ ہے جیسے کہ جناب ابراہیمؑ کا اپنے چچا سے کلام کرنا ملتا ہے کہ:

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَا َسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا۔ (سورہ مریم:47)

ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقیناً وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔

سلام کرنا خدا کو اتنا پسند ہے کہ اس کے مقرب فرشتوں نے بھی اس کو اپنایا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔

چنانچہ جب اللہ کے مقرب فرشتے جناب ابراہیمؑ کی خدمت میں مہمان ہوئے تو:

وَ لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًا۔ قَالَ سَلٰمٌ۔ (سورہ ہود:69)

اور جب ہمارے فرشتے بشارت لے کر ابراہیم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: سلام، ابراہیمؑ نے (جواباً) کہا: سلام۔

بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر خود اپنے بندوں پر سلام بھیجا ہے:

سَلاٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ۔ (سورہ صافات:109)

ابراہیم پر سلام ہو۔

سَلاٰمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَ ھٰارُوْنَ۔ (سورہ صافات:120)

موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔

سَلاٰمٌ عَلٰی اِلْ یَاسِیْنَ۔ (سورہ صافات:130)

آل یٰسین پر سلام ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

کیا تمہیں دنیا و آخرت کے بہترین اخلاق سے باخبر نہ کروں؟ تو سب نے کہا: کہ اے رسول اللہؐ! ضرور باخبر فرما دیجئے۔ تو آپؐ نے فرمایا: دنیا میں بلند آواز سے سلام کرنا۔

اسی طرح امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ:

’’گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ایک دوسرے کو سلام کرنا اور اچھی گفتگو کرنا بھی ہے‘‘۔

اسی طرح ایک اور مقام پر مروی ہے کہ:

’’ سلام ہماری ملت کا تخفہ ہے اور ہماری طرف سے امان کی ضمانت ہے‘‘۔

فوائد

اگر ہم سلام کے بارے میں وارد احادیث و روایات کا مطالعہ کریں تو اس مختصر اور آسان سے عمل کے بہت سے عظیم فوائد کا پتہ چلتا ہے۔ ہم یہاں چند فوائد کو مختصراً ذکر کرتے ہیں:

1۔ اگر کسی کو باہر راستہ میں سلام کیا جائے تو یہ نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

2۔ اگر گھر میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام کیا جائے تو یہ گھر میں برکت کا موجب بنتا ہے۔

3۔ سلام موجب مغفرت ہے۔

4۔ سلام باعث حصول رضاء الٰہی ہے۔

5۔ سلام کرنے سے درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

6۔ سلام کرنا آپس میں تعلقات اور روابط کو تقویت دیتا ہے۔

7۔ سلام کی عادت سے انسان کے دوست اور غمخواروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

آداب

روایات معصومین علیہم السلام میں سلام کرنے کے بہت سے آداب ذکر کئے گئے ہیں کہ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح سے کیا جا سکتا ہے۔

1۔ چونکہ سلام کرنا ایک نیکی کا کام ہے اور نیکی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

فاستبقو الخیرات (سورہ مائدہ: 48)

تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت کرو،

لہٰذا مؤمنین کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔

2۔ سلام اور اس کا جواب دونوں اتنی بلند آواز میں ہوں تاکہ دونوں ایک دوسرے کی آواز کو سن سکیں۔

3۔ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے سلام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ ’’جو سلام کے بغیر بات شروع کر دے اس کی بات کا جواب نہ دو‘‘۔

4۔ سلام کرنے کے لیے کسی عہدہ و عمر کی شرط نہیں ہے بلکہ جو بھی پہلے سلام کرے گا اسے زیادہ ثواب ملے گا اگرچہ روایات میں کچھ آداب ملتے ہیں کہ سوار پیدل کو، چھوٹا بڑے کو، کم تعداد والے اکثریت کو، کھڑا بیٹھے ہوئے کو، اور محفل میں آنے والا اہل محفل کو سلام کرے۔

5۔ سلام کا جواب، سلام سے بہتر یا کم از کم اسی سلام کی طرح دیا جائے کہ جیسے سلام کیا گیا ہے۔

مصافحہ و معانقہ

مذہب اسلام میں سلام کے بعد مصافحہ و معانقہ (گلے ملنے) کی بہت اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات منقول ہے کہ ہم ان میں سے چند کے ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے:

رسول گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’ایک دوسرے سے مصافحہ کرو کیونکہ مصافحہ آپس میں موجود کینہ و بغض کو ختم کر دیتا ہے‘‘۔

حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ:

’’جب تم برادر ایمانی سے ملاقات کرو تو مصافحہ کرو، نیز تبسم اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملو اس کے بعد جب تم ایک دوسرے سے جدا ہو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہ جائے گا‘‘۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

جب بھی تم آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرو تو ایک دوسرے کو سلام کرو اور آپس میں مصافحہ کرو اور جب جدا ہونے لگو تو ایک دوسرے سے طلب مغفرت کرتے ہوئے جدا ہو جاؤ۔

اسی طرح امام صادقؑ سے منقول ہے کہ:

جب مؤمنین گلے ملتے ہیں تو رحمت الٰہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے۔

اور مختلف روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ اگر کسی مسافر سے ملو تو اس سے معانقہ کرو اور اگر کسی مقیم شخص و ساتھی سے ملاقات ہو جائے تو اس کے ساتھ مصافحہ کرو۔

جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

کسی مقیم شخص کے لئے کامل استقبال کرنا یہ ہے کہ اس سے مصافحہ کیا جائے اور کسی مسافر کے سلام کو مکمل کرنا ہو تو اس سے معانقہ کرو۔

اسی طرح کی بہت سی احادیث میں مصافحہ کرنے اور گلے ملنے کو ایک اچھا اور نیک عمل شمار کیا گیا ہے۔ اس سے ان کو مؤمنین کے آپس میں پیار و محبت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ رضائے الہی کے حصول کا باعث بھی کہا ہے۔