اسلامی تعلیمات

باب 8 - قرآنی چیلنج

باب 8 - قرآنی چیلنج

قدیم امتیں عقل و فہم کے لحاظ سے اس قابل نہ تھیں کہ انہیں ایک ابدی شریعت کا امین بنایا جائے وہ صرف محسوسات کے ادراک کے قابل تھیں۔ اس لیے وہ لوگ اپنے خدا کو بھی محسوس شکل یعنی بت کی صورت میں لاتے تھے۔ ان کی طرف بھیجے گئے انبیاءؑ کو بھی جو معجزے دیے گئے وہ بھی محسوس معجزات تھے۔ حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کا عصا، دریا کو شق کرنا اور ید بیضاء جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ محسوس معجزات تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کو اپنے دور کا معجزہ دیا گیا یعنی سحر و جادو کا توڑتو حضرت عیسیٰؑ کو ان کے زمانے کا معجزہ دیا گیا یعنی طب و مسیحائی مگر چونکہ ان کے دعوؤں میں ابدیت نہ تھی اسی لیے ان کا معجزہ بھی ان کے زمانے تک محدود تھا۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت و رسالت ابدی اور قیامت تک کے لیے تھی لہٰذا ضروری تھاکہ ان کا معجزہ بھی ان کے دین کی طرح ابدی جامع اور ہمہ گیر ہو۔ اس ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بطور معجزہ انہیں عطا فرمایا۔

قرآن کے ابدی اور زندہ معجزہ ہونے پر اس سے واضح اور بیّن ثبوت اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کے چیلنج کی آواز پندرہ صدیوں سے علم و ادب اور فکر و نظر کی وسیع فضاؤں میں گونج رہی ہے اور آج تک دنیا کا کوئی مفکر، ادیب اور دانشور اس چیلنج کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ٹھہرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ قرآن مجید نے اس چیلنج کو بار بار اور مختلف صورتوں میں دہرایا ہے۔ کبھی ارشاد ہوا:

فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ (سورہ طور 34)

پس اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام بنا لائیں۔

اس دعوے نے مشرکین عرب کو دنگ کر دیا کیونکہ ایک ایسا شخص جس نے کبھی کسی سے کچھ نہ پڑھا ہو، نہ ایک سطر عبارت سیکھی ہو اور نہ ہی کوئی شعر کہا ہو، وہ یکبارگی اتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے کہ تم بھی اگر سچے ہو تو اس معجزانہ کلام کے ہم پلہ کلام لے آؤ۔ جب دیکھا کہ کفار مکہ اس چیلنج کو پورا نہ کر سکے تو پھر دس سورتوں کا مطالبہ فرمایا:

قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ (سورہ ہود، 13)

کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ۔

جب مدّمقابل اس چیلنج کو بھی پورا نہ کر سکے تو پھر قرآن نے ایک مختصر سی سورت ہی لانے کی دعوت دے دی:

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدؐ نے) از خود بنا لیا ہے۔؟ کہہ دیجیے اگر تم (اپنے الزام میں سچے ہو تو تم، بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ (سورہ یونس 38(

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا﴿۸۸﴾ (سورہ اسراء 88)

کہہ دیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

اس کے لیے کوئی تاریخ اور وقت مقرر نہیں ہے بلکہ یہ ایک کھلم کھلا چیلنج ہے اور اس کی آواز ہر زمانے کی فضاؤں میں گونجتی رہے گی اور مقابلہ کرنے کا چیلنج دیتی رہے گی۔ جب ان سارے چیلنجز کے سامنے انسان عاجز ہو گیا اور کوئی بھی مقابلے کی جرأت نہ کر سکا تو قرآن مجید نے نہایت ہی سادہ اور عام فہم انداز میں نیا طرز استدلال اپناتے ہوئے اس کے عقل و شعور کو جھنجھوڑا اور کہا اے نادان! کیا تو نے کبھی غور کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اگر محمدؐ عربی انسانی اور بشری طاقت سے یہ قانون دے رہے ہوتے تو یقیناً اس طویل عرصے میں دیے جانے والے قانون کے اجزاء اور شقوں میں اختلاف اور تضاد آجاتا۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا﴿۸۲﴾ (سورہ نساء 82)

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔