قدیم امتیں عقل و فہم کے لحاظ سے اس قابل نہ تھیں کہ انہیں ایک ابدی شریعت کا امین بنایا جائے وہ صرف محسوسات کے ادراک کے قابل تھیں۔ اس لیے وہ لوگ اپنے خدا کو بھی محسوس شکل یعنی بت کی صورت میں لاتے تھے۔ ان کی طرف بھیجے گئے انبیاءؑ کو بھی جو معجزے دیے گئے وہ بھی محسوس معجزات تھے۔ حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کا عصا، دریا کو شق کرنا اور ید بیضاء جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ محسوس معجزات تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کو اپنے دور کا معجزہ دیا گیا یعنی سحر و جادو کا توڑتو حضرت عیسیٰؑ کو ان کے زمانے کا معجزہ دیا گیا یعنی طب و مسیحائی مگر چونکہ ان کے دعوؤں میں ابدیت نہ تھی اسی لیے ان کا معجزہ بھی ان کے زمانے تک محدود تھا۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت و رسالت ابدی اور قیامت تک کے لیے تھی لہٰذا ضروری تھاکہ ان کا معجزہ بھی ان کے دین کی طرح ابدی جامع اور ہمہ گیر ہو۔ اس ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بطور معجزہ انہیں عطا فرمایا۔
قرآن کے ابدی اور زندہ معجزہ ہونے پر اس سے واضح اور بیّن ثبوت اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کے چیلنج کی آواز پندرہ صدیوں سے علم و ادب اور فکر و نظر کی وسیع فضاؤں میں گونج رہی ہے اور آج تک دنیا کا کوئی مفکر، ادیب اور دانشور اس چیلنج کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ٹھہرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ قرآن مجید نے اس چیلنج کو بار بار اور مختلف صورتوں میں دہرایا ہے۔ کبھی ارشاد ہوا:
فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ (سورہ طور 34)
پس اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام بنا لائیں۔
اس دعوے نے مشرکین عرب کو دنگ کر دیا کیونکہ ایک ایسا شخص جس نے کبھی کسی سے کچھ نہ پڑھا ہو، نہ ایک سطر عبارت سیکھی ہو اور نہ ہی کوئی شعر کہا ہو، وہ یکبارگی اتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے کہ تم بھی اگر سچے ہو تو اس معجزانہ کلام کے ہم پلہ کلام لے آؤ۔ جب دیکھا کہ کفار مکہ اس چیلنج کو پورا نہ کر سکے تو پھر دس سورتوں کا مطالبہ فرمایا:
کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ۔
جب مدّمقابل اس چیلنج کو بھی پورا نہ کر سکے تو پھر قرآن نے ایک مختصر سی سورت ہی لانے کی دعوت دے دی:
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدؐ نے) از خود بنا لیا ہے۔؟ کہہ دیجیے اگر تم (اپنے الزام میں سچے ہو تو تم، بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ (سورہ یونس 38(
کہہ دیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
اس کے لیے کوئی تاریخ اور وقت مقرر نہیں ہے بلکہ یہ ایک کھلم کھلا چیلنج ہے اور اس کی آواز ہر زمانے کی فضاؤں میں گونجتی رہے گی اور مقابلہ کرنے کا چیلنج دیتی رہے گی۔ جب ان سارے چیلنجز کے سامنے انسان عاجز ہو گیا اور کوئی بھی مقابلے کی جرأت نہ کر سکا تو قرآن مجید نے نہایت ہی سادہ اور عام فہم انداز میں نیا طرز استدلال اپناتے ہوئے اس کے عقل و شعور کو جھنجھوڑا اور کہا اے نادان! کیا تو نے کبھی غور کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اگر محمدؐ عربی انسانی اور بشری طاقت سے یہ قانون دے رہے ہوتے تو یقیناً اس طویل عرصے میں دیے جانے والے قانون کے اجزاء اور شقوں میں اختلاف اور تضاد آجاتا۔
اسلامی تعلیمات
تعارف
اسلامی تعلیمات
انتساب
اپنی بات
تمہید
تقریظ
قرآنیات
کورس کا تعارف اور اہداف
قرآن مجید کا تعارف
فضائل قرآن بزبان قرآن
فضائل قرآن بزبان معصوم
آداب تلاوت قرآن مجید
ثوابِ تلاوت قران مجید
جمع قرآن
عدم تحریف قرآن
قرآن مجید کی جاذبیت
انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
قرآنی چیلنج
انسان کی خلقت
عمل اور ردعمل
قرآن اور حیوانیات - Zoology
قرآن اور حیوانیات - Zoology 2
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ
قصہ آنے والے دن کا
قصہ آنے والے دن کا (2)
قرآن مجید دعوت فکر
اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)
خدا پسند تمنائیں
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
عقائد
کورس کا تعارف اور اہداف
اصول دین
اثبات وجود خدا
خدا کی صفات اور توحید
توحید خدا پر دلائل
توحید کی اقسام
تجسیم خدا
عدل
قسمت کا کھیل
نبوت
معجزہ
قرآن مجید اور آسمانی کتابیں
امامت
محبت اہل بیت علیہم السلام
عقیدہ توسل
شفاعت
مہدویت
رجعت
قیامت
حساب و کتاب
تقیہ
اخلاقیات
کورس کا تعارف اور اہداف
اخلاق
جھوٹ
دوسروں کے مال کا استعمال
نخوت و تکبر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ایک مفید ملاقات
غصہ اور گالی گلوچ
دعا
حسد
ضیاع وقت
مؤمن کی اہانت
ملاقات مؤمن حصہ اول
ملاقات مؤمن حصہ دوم
ضیافت و زیارت
صلہ رحمی و قطع رحمی
قطع رحمی
بخل و اسراف
بخل
اسراف
دوستی
احترام والدین
حقوق والدین
بری صحبت
موسیقی
احکام
کورس کا تعارف اور اہداف
احکام خمسہ
تقلید
نجاسات
مطہرات
وضو
وضو کی شرائط
واجب غسل
طریقہ غسل و تیمم
واجب نمازیں
واجبات نماز
مکروہات نماز
روزہ
احکام میت
نمار میت کا طریقہ
نماز جمعہ، نماز آیات، نماز عیدین
نگاہ
مسجد
کھانا کھانے کے آداب
سونے اور رفع حاجت کے آداب
بیت الخلاء کے احکام
تجوید کے احکام
تعریف اور حرکات
لحن
مخارج 1
مخارج 2
مخارج 3
صفات
نون ساکن اور تنوین کے احکام
میم ساکن کے احکام
سکون
وقف کے احکام
باب 8 - قرآنی چیلنج
باب 8 - قرآنی چیلنج
قدیم امتیں عقل و فہم کے لحاظ سے اس قابل نہ تھیں کہ انہیں ایک ابدی شریعت کا امین بنایا جائے وہ صرف محسوسات کے ادراک کے قابل تھیں۔ اس لیے وہ لوگ اپنے خدا کو بھی محسوس شکل یعنی بت کی صورت میں لاتے تھے۔ ان کی طرف بھیجے گئے انبیاءؑ کو بھی جو معجزے دیے گئے وہ بھی محسوس معجزات تھے۔ حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کا عصا، دریا کو شق کرنا اور ید بیضاء جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ محسوس معجزات تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کو اپنے دور کا معجزہ دیا گیا یعنی سحر و جادو کا توڑتو حضرت عیسیٰؑ کو ان کے زمانے کا معجزہ دیا گیا یعنی طب و مسیحائی مگر چونکہ ان کے دعوؤں میں ابدیت نہ تھی اسی لیے ان کا معجزہ بھی ان کے زمانے تک محدود تھا۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت و رسالت ابدی اور قیامت تک کے لیے تھی لہٰذا ضروری تھاکہ ان کا معجزہ بھی ان کے دین کی طرح ابدی جامع اور ہمہ گیر ہو۔ اس ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بطور معجزہ انہیں عطا فرمایا۔
قرآن کے ابدی اور زندہ معجزہ ہونے پر اس سے واضح اور بیّن ثبوت اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کے چیلنج کی آواز پندرہ صدیوں سے علم و ادب اور فکر و نظر کی وسیع فضاؤں میں گونج رہی ہے اور آج تک دنیا کا کوئی مفکر، ادیب اور دانشور اس چیلنج کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ٹھہرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ قرآن مجید نے اس چیلنج کو بار بار اور مختلف صورتوں میں دہرایا ہے۔ کبھی ارشاد ہوا:
فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ (سورہ طور 34)
پس اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام بنا لائیں۔
اس دعوے نے مشرکین عرب کو دنگ کر دیا کیونکہ ایک ایسا شخص جس نے کبھی کسی سے کچھ نہ پڑھا ہو، نہ ایک سطر عبارت سیکھی ہو اور نہ ہی کوئی شعر کہا ہو، وہ یکبارگی اتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے کہ تم بھی اگر سچے ہو تو اس معجزانہ کلام کے ہم پلہ کلام لے آؤ۔ جب دیکھا کہ کفار مکہ اس چیلنج کو پورا نہ کر سکے تو پھر دس سورتوں کا مطالبہ فرمایا:
قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ (سورہ ہود، 13)
کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ۔
جب مدّمقابل اس چیلنج کو بھی پورا نہ کر سکے تو پھر قرآن نے ایک مختصر سی سورت ہی لانے کی دعوت دے دی:
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدؐ نے) از خود بنا لیا ہے۔؟ کہہ دیجیے اگر تم (اپنے الزام میں سچے ہو تو تم، بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ (سورہ یونس 38(
قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا﴿۸۸﴾ (سورہ اسراء 88)
کہہ دیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
اس کے لیے کوئی تاریخ اور وقت مقرر نہیں ہے بلکہ یہ ایک کھلم کھلا چیلنج ہے اور اس کی آواز ہر زمانے کی فضاؤں میں گونجتی رہے گی اور مقابلہ کرنے کا چیلنج دیتی رہے گی۔ جب ان سارے چیلنجز کے سامنے انسان عاجز ہو گیا اور کوئی بھی مقابلے کی جرأت نہ کر سکا تو قرآن مجید نے نہایت ہی سادہ اور عام فہم انداز میں نیا طرز استدلال اپناتے ہوئے اس کے عقل و شعور کو جھنجھوڑا اور کہا اے نادان! کیا تو نے کبھی غور کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اگر محمدؐ عربی انسانی اور بشری طاقت سے یہ قانون دے رہے ہوتے تو یقیناً اس طویل عرصے میں دیے جانے والے قانون کے اجزاء اور شقوں میں اختلاف اور تضاد آجاتا۔
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا﴿۸۲﴾ (سورہ نساء 82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔