اسلامی تعلیمات

باب 16 - دوستی

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جس کے لیے معاشرے کے دوسرے افراد سے میل جول رکھنا اور تعلقات پیدا کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس کی معاشرتی زندگی یا اس کی اجتماعی زندگی اس کے مقتضائے فطرت کے مطابق چل سکے۔ اس لیے انسان کو اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے علاوہ کچھ ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی زندگی میں اثر انداز ہو سکیں اور انہی افراد کو دوست کہا جاتا ہے۔ دوستی انسان کے لیے ایک ایسا اہم رشتہ ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ دوست کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر روایات معصومین علیہم السلام میں بھی دوستی کرنے اور دوست بنانے کی بہت تعریف و تاکید کی گئی ہے۔

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

جو شخص دوست نہیں رکھتا گویا اس کے پاس کوئی ذخیرہ موجود نہیں ہے۔

یعنی انسان کا اصل سرمایہ اس کا دوست ہوتا ہے کہ جس کا وہ انتخاب کرتا ہے کیونکہ عزیز و رشتہ دار اور خاندان تو اسے ان میں پیدا ہونے کی وجہ مل جاتا ہے ہاں دوست وہ ذات ہے کہ جس کا وہ خود انتخاب کرتا ہے اسی لئے دوست کو انسان کا سرمایہ شمار کیا گیا ہے۔

دوست چونکہ انسان خود چنتا ہے اور وہ ان میں سے اپنے ہم خیال لوگوں کا ہی انتخاب کرتا ہے اسی وجہ سے ان کی سوچ و فکر اور قابلیت بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔

چنانچہ حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ:

’’دوست ایسے ہوتے ہیں جیسے مختلف جسموں میں ایک روح ہوتی ہے‘‘۔

اسلام میں جہاں دوستی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے تو وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ہر کس و ناکس سے دوستی کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایک دوست انسان کے تمام رشتہ داروں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتا ہے تو یقیناً انسان اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے چنانچہ اسی سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا تم دیکھو کہ کس کے دوست ہو‘‘۔

اسی طرح ایک اور مقام پر آپؐ سے مروی ہے کہ’’ لوگوں کو ان کے دوستوں کے ذریعے پہچانو اس لیے کہ ہر انسان اس سے دوستی کرتا ہے جو اسے اچھا لگتا ہے‘‘۔

اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں امیرالمؤمنین علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ:

ہر انسان اپنے جیسے کی طرف میلان رکھتا ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوست کے انتخاب میں بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم قرآن مجید اور فرامین معصومین علیہم السلام میں دقت کریں تو ہمیں چند صفات ملتی ہیں کہ دوست کا انتخاب کرنے کے لیے جن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری سمجھا گیا ہے۔

1۔ قرآن مجید میں ایسے افراد سے دوستی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جو دن رات یاد الہٰی میں بسر کرتے ہیں اور جو رضائے الٰہی کے خواہاں ہوتے ہیں۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہے کہ:

وَلاَ تَطْرُدِالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ۔ (سورہ انعام:52)

جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہی کو اپنا مقصود بنائے ہوئے ہیں ان کو اپنی بزم سے علیحدہ نہ کیجیے گا۔

اسی طرح ایک اور مقام پر حکم دیا کہ:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ۔ (سورہ کہف:28)

اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں۔

2۔ احادیث مبارکہ میں شریف النفس اور اعلیٰ صفات کے حامل افراد سے دوستی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب انسان وہ ہے جو کریم افراد سے رابطہ رکھے‘‘۔

3۔ کسی سے دوستی کرتے وقت اس کے تقویٰ و پرہیز گاری کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ رسول گرامی قدرؐ سے جب کسی نے پوچھا کہ بہترین ہم نشین کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آجائے، جس کی گفتگو سن کر تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے‘‘۔

4۔ بہت سی روایات میں علماء، حکماء اور فقراء کی ہم نشینی اختیار کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ ’’علماء سے سوال کرو، حکماء سے رابطہ رکھو اور فقراء کی ہم نشینی اختیار کرو‘‘۔

5۔ روایات معصومین میں عقل مند، دانا اور ایسے افراد کی دوستی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو ہر انسان کے لیے باعث عزت و زینت ہوں۔ جیسا کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے منقول ہے کہ ’’اس شخص کی ہم نشینی اختیار کرو کہ جس کی دوستی تمہارے لیے سربلندی اور زینت کا باعث ہو اگر تم اس کی خدمت کرو تو وہ تمہارا احترام کرے اگر کسی کار خیر کے لیے اس کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ تو تمہاری حمایت کرے اگر تمہارے اندر کوئی عیب دیکھے تو اسے چھپائے اور اسے ظاہر نہ کرے اگر تمہارے اندر کوئی اچھی صفت دیکھے تو اس کی قدر کرے تم اس سے کچھ طلب کرو تو عطا کرے، اگر تمہاری کوئی ضرورت ہو تو وہ خود اسے پوری کرنے کی کوشش کرے۔

6۔ روایات میں دوستی کا معیار خلوص و صداقت کو قرار دیا گیا ہے جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ ’’اس شخص کی پیروی کرو کہ تمہیں رلاتا ہو مگر تمہارا خیر خواہ بھی ہو۔ اور اس شخص کی اتباع نہ کرو جو تمہیں ہنساتا تو ہو مگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہتا ہو‘‘۔