اسلامی تعلیمات

باب 18 - حقوق والدین

والدین اولاد کیلیے خدا کی طرف سے ایک عظیم نعمت اور سایہ شفقت و رحمت ہیں، اولاد جب تک والدین کی اطاعت، فرمانبرداری اور ان سے نیکی کا عمل جاری رکھتی ہے وہ دنیوی اور اخروی تمام مشکلات سے محفوظ رہتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس تحفظ اور سایٔہ شفقت کا احساس روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے اور زمانہ جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہاں اس مادّی دور میں اتنی ہی تیزی سے انسانی معاشرے سے روحانی اور اخلاقی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں آج ترقی کے نام پر ہمارے معاشرے پر مغربی تہذیب و تمدّن کو مسلّط کیا جا رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں والدین کی عزت و احترام کا تصور تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں والدین کا احترام نہ صرف ان کی زندگی میں واجب ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی انکی خدمت اور احترام کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ شریعت اسلام نے اس امر کو اتنی اہمیت دی ہے کہ شاید ہی کسی اور اخلاقی واجب عمل کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔

چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ ’’قیامت کے دن نیکوکاروں کا سردار وہ شخص ہو گا جو اپنے والدین کے مرنے کے بعد بھی ان سے نیک سلوک کرتا رہا ہو‘‘۔

اگر آج کوئی انسان بلند مقام پر فائز ہوا ہے تو یقیناً والدین کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، اگر کوئی عالم، ڈاکٹر، انجینئر یا کسی اور عظیم منصب پر ہے تو یہ والدین کی اچھی تربیت، محبت اور شفقت کا نتیجہ ہے۔ اولاد کو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لئے والدین کی نیک دعاؤں کی سخت ضرورت ہوتی ہے، اور ماں باپ یقیناً اپنی اس اولاد کو دعائیں دیں گے جو اطاعت گزار ہے، لہٰذا نوجواں نسلوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اسلام نے والدین کو بہت بلند مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اور وہی عظیم انسان بنے گا جو والدین کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ لیکن اگر اولاد والدین کی نافرمانی کرے تو یہ گناہ کبیرہ میں سے ہو گا جس کی بخشش نہیں ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

ہر گناہ اگر خدا چاہے تو معاف کر دیتا ہے مگر والدین کی نافرمانی والا گناہ معاف نہ ہو گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین کا احترام کس طرح کیا جائے تو اس کے متعلق مختلف آیات و روایات میں چند اصول بیان کیے گیے ہیں کہ جن کا خلاصہ یہ ہے:

1۔ بہت اہتمام سے ان کی عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے۔

2۔ ان سے کوئی ایسی بات نہ کہی جائے کہ جو ان کو ناگوار گزرے۔

3۔ ان سے بات کرتے وقت آواز دھیمی رکھی جائے۔

4۔ ان کو تند و تیز نگاہوں سے نہ گھورا جائے۔

5۔ راستہ چلتے وقت ان کے پیچھے چلا جائے۔

6۔ معصیت الٰہی کے علاوہ ان کے ہر حکم کو عزت و احترام سے قبول کیا جائے۔

7۔ ان کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھا جائے۔ اسی طرح ہر اس کام سے اجتناب کرنا ضروری ہے کہ جس سے ان کے دل کو ٹھیس پہنچے اور وہ غمزدہ ہوں۔

جہاں پر والدین کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرنے سے انسان کی اپنی زندگی پرسکون گزرتی ہے اور ذہنی سکون و آسودگی محسوس کرتا ہے وہاں اس کے اور بھی بہت سے دنیاوی اور اخروی فوائد کا مستحق ٹھہرتا ہے۔جن میں سے چند ایک کو مختصراً بیان کریں گے:

1۔ اللہ تعالیٰ اور معصومین علیہم السلام کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے۔

2۔ ایسے شخص کے تمام اعمال قبول ہوتے ہیں۔

3۔ اگر کوئی آج اپنے والدین کی عزت کر رہا ہے تو عدل الٰہی کا تقاضا یہی ہے کہ کل کو اس کو بھی یہی عزت اپنی اولاد سے نصیب ہو۔

4۔ والدین کی ایک رات خدمت کرنا جہاد فی سبیل اللہ کرنے سے بہتر ہے۔

5۔ جنت کہ جس کو ماں کے قدموں میں قرار دیا گیا ہے ایسے شخص کی مشتاق رہتی ہے۔

6۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک بہت سے گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔

7۔ میدان محشر میں عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہو گا۔

جہاں والدین کی اطاعت اتنے زیادہ فوائد و درجات کا باعث بنتی ہے وہاں پر ان کی نافرمانی دنیا و آخرت میں مختلف قسم کے نقصانات کا موجب بنتی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے اس واقعہ سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قبر کے قریب سے گزرے تو قبر سے آواز آنے لگی۔ یا رسول اللہؐ مجھے بچائیں میں عذاب کی لپیٹ میں ہوں۔ نبی کریمؐ نے اس سے عذاب کی وجہ پوچھی تو قبر سے آواز آئی ’’ کیونکہ دنیا میں، میں نے اپنی والدہ کو تنگ کیا تھا اور وہ مجھ پر ناراض ہیں لہٰذا مجھے عذاب دیا جا رہا ہے‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلالؓ سے کہا جاؤ سب لوگوں سے کہو، کہ اس قبر کے پاس آجائیں۔ تھوڑی دیر میں اس قبر کے ارد گرد ایک جم غفیر ہو گیا اور انہیں میں ایک بوڑھی خاتون عصا پر سہارا لیے آنحضرت کے قریب آن کھڑی ہوئی اور سلام کیا اور کہا یا رسول اللہ یہاں کیا ہوا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرے فرزند کی قبر ہے اور اس پر اللہ کا سخت عذاب ہو رہا ہے۔ پس تو اسے معاف کر اور راضی ہو جا۔ تو وہ بڑھیا بولی! میں اسے معاف نہ کروں گی کیونکہ میں نے اسے دودھ پلایا، اسکی پرورش کی خاطر تکلیفیں برداشت کیں خود گیلے بستر پر سوئی اور اسے سوکھے پر سلایا لیکن جب وہ جوان ہوا اور اس کے کمزور اعضاء میری پرورش کے نتیجہ میں طاقتور ہو گئے تو اس نے بطور بدلہ مجھے اذیتیں دیں اور مجھے تنگ کرکے خوش ہوتا تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ’’اے اللہ اس ماں کو اپنے فرزند کی آواز سنا، تاکہ اس کا دل نرم ہو‘‘

اب جب بڑھیا نے قبر پر کان رکھے تو اس نے سنا کہ اسکا بیٹا مجھے بچالو، مجھے بچالو، مجھے بچالو، کہہ کر چیخ رہا ہے۔ اور کہتا ہے میرے اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف آگ ہی آگ ہے۔ خدارا مجھے بچالو ماں! مجھے بچالو۔ یہ سن کر ماں نے معاف کر دیا تو تھوڑی دیر بعد قبر سے آواز آئی اے میری مہربان ماں! جونہی تو نے مجھے معاف کیا اللہ نے بھی مجھے معاف کر دیا۔ اور اللہ کا عذاب ختم ہو گیا۔

لمحہ فکریہ

حقوق والدین ان مسائل میں سے ہیں جن کو ادا کرنے کی قرآن مجید میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، قرآن کی نظر میں ان حقوق کی اتنی اہمیت ہے کہ چار مقامات (سورہ بقرہ آیت 83، بنی اسرائیل آیت 33، انعام آیت 151، النساء آیت 36) پر مسٔلہ توحید کے فوراً بعد ان کی ادائیگی کی تاکید کی ہے، ان تعبیرات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ توحید اور حقوق والدین کا چولی دامن کا ساتھ ہے قرآن تو کہتا ہے والدین کو اُف بھی نہ کہو، جھڑکنا تو دور کی بات ہے۔

لیکن افسوس مسلمانوں نے قرآن کو صرف تلاوت اور حفظ کرنے تک محدود کر رکھا ہوا ہے اور حکم قرآن پر عمل نہیں کرتے اس دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو والدین کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے، بعض لوگوں کا مزاج شادی کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے اور ماں باپ کو اپنے بیوی بچوں کا نوکر بنا کر رکھتے ہیں اور سب کے سامنے والدین کی تذلیل کرکے ان کو خود سے الگ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح والدین کی بزرگی و بڑھاپے میں ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیتے ہیں، کیا ایسے لوگوں سے خدا راضی ہو گا؟