اسلامی تعلیمات

باب 19 - بری صحبت

گذشتہ سبق سے ہمیں معلوم ہوا کہ دوست کے انتخاب میں ہمیں احتیاط اور توجہ کرنی چاہیے۔ اس لیے دوست ایک جانب تو انسان پر اثر انداز ہوتا ہے، دوسری طرف اس کے ذریعے ہماری شخصیت اور کردار کا پتہ چلتا ہے، ہمیں ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنانا چاہیے کہ جو ہم پر نیک اثر ڈالیں اور سماج میں ہماری سر بلندی و کمال کا باعث بنیں۔

تاریخ بشریت میں مختلف آسمانی شریعتوں کے وجود سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال نے انسان کو خلق کرنے کے بعد اسے اس کی صوابدید پر نہیں چھوڑا کہ جو کرنا چاہے کرے، اور جس کے ساتھ چاہے نشست و برخاست رکھے اور جو چاہے کہے یا سنے۔ بلکہ آیات و روایات میں بہت سی ہدایات موجود ہیں کہ جس میں انسان کو اعلیٰ درجات حاصل کرنے کی رہنمائی کی گئی ہے اور ایسا ضابطہ حیات دیا گیا ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر انسان دنیا و آخر ت میں سعادت کو حاصل کر سکتا ہے۔

جہاں اسلام نے یہ معیار بتایا ہے کہ فلاں صفات و کمالات کے حامل شخص سے دوستی کرو وہاں آیات و روایات میں بہت سے افراد کے ساتھ دوستی اور ہم نشینی سے منع کیا گیا ہے کیونکہ برے لوگوں کی صحبت بہت برے نتائج اور نقصانات کا موجب بنتی ہے۔ جن میں سے چند نقصانات یہ ذکر ہوئے ہیں:

1۔ بری صحبت کے نتیجے میں انسان سنگ دل ہو جاتا ہے۔

2۔ بری صحبت انسان کو کئی دیگر حرام کاموں کی طرف کھینچ لیتی ہے۔

3۔بری صحبت کے نتیجے میں انسان قہر و غضب الٰہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

4۔ بری صحبت کی وجہ سے اگر انسان خود برا نہ بھی ہو تو برا شمار کیا جاتا ہے اور بد نام ہوتا ہے۔

5۔ کسی برے شخص سے برائی کے علاوہ اور کسی چیز کی امید بھی نہیں کی جا سکتی پس ایسی صحبت اور دوست وقت پڑنے پر انسان کا ساتھ نہیں دیتے ہیں اور انسان معاشرہ میں تنہا رہ جاتا ہے۔

ان نکات کے پیش نظر اگر ہم قرآن مجید اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث پر نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ کیسے لوگ دوستی اور ہم نشینی کے قابل نہیں ہوتے ہیں تو ہمیں یہ چند گروہ ملیں گے کہ جن سے دوستی کرنے سے صریح الفاظ میں منع کیا گیا ہے۔

1۔ سب سے پہلے وہ گروہ ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتا ہے اور دین خدا کا مذاق اڑاتا ہے۔ ایسے افراد کی صحبت اور ان سے دوستی کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ وَاتَّقُوااللّٰہ َاِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ مائدہ۔57)

اے ایمان والو !خبردار اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کا مذاق اور تماشا بنا لیا ہے اور دیگر کفار کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ۔

2۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی توہین کرتے ہیں ایسے افراد سے بھی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

’’اگر تم کبھی ان لوگوں کے درمیان جو اہل بیت علیم السلام کی عظمت اور ان کے حق کے منکر ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے ہیں، پھنس جاؤ تو اس طرح ہو جاؤ گویا جلتے ہوئے پتھر پر بیٹھے ہو تاکہ فوراً اٹھ جاؤ (یعنی اس جگہ سے جلد دور ہو جاؤ) اس لیے کہ خداوند عالم ان پر لعنت کرتا ہے۔ اور اگر دیکھو کہ وہ آئمہؑ میں سے کسی کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو وہاں سے اٹھ جاؤ اس لیے کہ خدا کا عذاب ان پر وہیں نازل ہو گا‘‘۔

3۔تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں:

جن سے دوستی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، وہ ہیں جو دین میں بدعت اور اصول دین میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔

ایسے افراد کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ ’’میرے بعد جب بھی ایسے لوگوں کو دیکھنا جو دین میں شک و شبہ اور بدعتیں پیدا کرنے والے ہوں تو ان سے کھلم کھلا بیزاری کرتے رہنا اور جس قدر ممکن ہو ان پر لعن طعن کرنا اور ان کے بارے میں گفتگو کرتے رہنا اور انہیں اس طرح خاموش کر دینا کہ پھر ان کے اندر اسلام میں فساد برپا کرنے کی ہمت نہ ہو اور لوگوں کو ان سے دور رکھنا تاکہ وہ ان سے ان کی بدعتیں نہ سیکھیں۔ اس کے بدلے خدا تمہارے لیے بہترین نیکیاں لکھے گا اور آخرت میں تمہارے درجات کو بلند کرے گا‘‘۔

4۔ چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جو شرارت پسند، فاسق، گناہ گار، اور خدا کی نافرمانی کرنے والے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے ایسے افراد سے دوستی کرنے کی مذمت کچھ اس طرح منقول ہے کہ ’’ایک مسلمان کو کسی فاسق و فاجر سے رابطہ نہیں رکھنا چاہیے اس لیے کہ وہ اس مسلمان کے سامنے اپنے عمل کو اچھا بنا کر ظاہر کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ مسلمان بھی اس جیسا ہو جائے اور اس کی دنیا و آخرت کے بارے میں اس کی مدد نہیں کرتا اور اس کے ساتھ آمد و رفت رکھنے میں مسلمان کی ذلت ہے‘‘۔

5۔پانچویں وہ لوگ ہیں جن کا دین، اخلاق و کردار اور فہم و شعور زیادہ نہ ہو اگرچہ وہ فاسق شخص نہ بھی ہوں پھر بھی ان سے ہم نشینی سے منع کیا گیا ہے۔ جیسے احمق، جھوٹا، وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

واقعہ

عقبہ ابن ابی معیط اسلام کے ابتدائی ایام میں کفار مکہ میں اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس کی طرف سے گزر ہوا تو اس نے آپؐ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب تک تم مسلمان نہیں ہو گے میں تمہارے دستر خوان پر نہیں بیٹھوں گا‘‘۔ وہ اپنی مہمان نوازی سے مجبور تھا اس لیے اس نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری کر دیا اور مسلمان ہو گیا۔

اسی وقت عقبہ کا ایک دوست ’’اُبیَ‘‘ کو جب یہ معلوم ہوا کہ عقبہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوا اور اس کے پاس آکر اسے برا بھلا کہا کہ تم اپنے دین سے خارج ہو گئے ہو۔ عقبہ نے جواب دیا کہ میرے مہمان نے شرط کر دی تھی کہ جب تک میں مسلمان نہ ہو جاؤں وہ میرے دستر خوان پر نہیں بیٹھے گا۔ اُبیَ نے اس سے کہا کہ تم اپنے دین پر پلٹ آؤ اور پیغمبرؐ کی توہین کرو یا آج سے میری اور تمہاری دوستی بالکل ختم ہے۔ اُبیَ کے بہت اصرار پر عقبہ نے ایسا ہی کیا اور اسلام سے خارج ہو گیا۔ آخر کار جنگ بدر میں سپاہ اسلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔

قرآن مجید نے اس واقعہ کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ:

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَالَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا ()یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا () لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْجَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا (فرقان27،28،29)

اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو ذکر (ہدایت) پانے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے۔

خداوند متعال سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں ایسے دوستوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جو دنیا وآخرت میں ہمارے نقصان کا باعث بن سکتے ہوں۔ (آمین)