اسلامی تعلیمات

باب 9 - انسان کی خلقت

باب9 - انسان کی خلقت

کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوقات پیدا کی ہیں انسان ان میں سب سے زیادہ پیچیدہ بھی ہے اور عجیب بھی۔ صدیوں سے انسان اور اس کے اندر موجود انسانی نظام سے متعلق انکشافات ہوتے آرہے ہیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بلکہ آئے روز نت نئے حقائق سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔ خالق کائنات اس کو عدم سے وجود میں لا کر پیدائش کے فوری بعد ماں کی مامتا کی صورت میں دیکھ بھال اور پرورش کرنے والی گود عنایت کرتا ہے جبکہ انسان تو اس وقت بالکل بے بس ولاچار ہوتا ہے۔ مگر یہ انسان کتنا عجیب ہے کہ جونہی یہ فہم و فراست کی منزل کو پہنچتا ہے تو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن سمجھنے لگتا ہے۔ حد یہ کہ خدا کی خدائی کو چیلنج کر کے، أنا ربکم الاعلیٰ (یعنی میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ) کا نعرہ لگاتا ہے۔ حالانکہ حقیر اور ناچیز اتنا ہے کہ اگر خدا صرف اپنی رحمت (بارش ) کو ہی روک لے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ سمجھتا یہ ہے کہ اس کا دل، اس کے پھیپھڑے اور اس کا سارا نظام بغیر کسی سبب کے خود سے ہی ہر وقت حرکت میں ہے۔ شاید انہی وجوہات کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ:

’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ‘‘ جس کو اپنے آپ کی شناخت ہو گئی گویا کہ اسے اپنے رب کی پہچان ہو گئی۔

انسانی مخلوق کی ابتدائی تخلیق اللہ تعالیٰ نے مٹی سے کی جبکہ اس کی نسل کی بقاء کو ایک حقیر پانی سے قرار دیا۔

’’اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا، پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘ (سورہ سجدہ 7 تا 9)

یعنی ابوالبشر حضرت آدمؑ کی تخلیق تو مٹی سے ہوئی لیکن ان کی نسلوں کے تسلسل کو پانی کے نچوڑ(منی) کے ذریعے جاری رکھا۔ جبکہ آج کی نام نہاد سائنسی طاقتیں جو کائنات کے وجود کو محض ایک اتفاقی حادثے کا نام دیتی ہیں اپنا سارا زور ڈارون تھیوری (Darwin Theory) پر صرف کر رہی ہیں کہ انسان ایک تدریجی عمل سے گزر کر موجودہ شکل میں آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تدریجی عمل آج رک کیوں گیا ہے؟

قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق ابتدائی انسان خاکی عناصر سے تخلیق کیا گیا اور اس کے بعد کے تمام انسان بذریعہ نطفۂ امشاج یعنی ایک مخلوط نطفے کے ذریعے پیدائش کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اسی نطفۂ امشاج کو ایک دوسری جگہ ’’ ما ء دافق ‘‘ یعنی اچھلنے والے پانی سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ اچھلنے والاپانی انسانی جسم کے کس حصے سے جمع ہو کر آتا ہے۔ ارشاد قدرت ہے:

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾ یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ ؕ﴿۷﴾ (سورہ الطارق، 5 تا 7)

پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے وہ اچھلنے والے پانی سے خلق کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے۔

یہ آیات انسان کو اپنی خلقت پر دعوت فکر دینے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کرتی ہیں کہ وہ اچھلنے والا پانی جو انسانی خلقت کا سبب بنتا ہے جسم کے کس حصے سے اکھٹا ہو کر آتا ہے۔ ریڑھ اور سینے کی ہڈیاں اس پانی کا منبع ہیں یہیں سے یہ پانی نکلتا ہے۔ موجودہ سائنس ابھی تک یہ واضح نہیں کر سکی ہے کہ آیا یہ پانی مرد اور عورت دونوں کی ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے یا پھر مرد کی ریڑھ کی ہڈی سے اور عورت کی پسلی کی ہڈیوں سے۔ قرآن مجید کے اس راز سے شاید آنے والی نسلیں ہی پردہ اٹھا سکیں گی۔ خلقت انسان کے باب میں قرآن مجید میں ’’نطفۂ امشاج ‘‘ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جس کا معنی ہے ’’مخلوط نطفہ‘‘۔

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ (سورہ دھر، 2)

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔

یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ انسانی جسم خلیوں (Cells) سے تشکیل پاتا ہے اور اس کے جسم میں موجود جسمانی خلیہ کا مرکزہ 46 کروموسومز پر مشتمل ہوتا ہے۔ بچے کی تخلیق کے لیے 23 کروموسومز مرد فراہم کرتا ہے جبکہ 23 ہی کروموسومز عورت کی جانب سے عمل تخلیق میں شرکت کرتے ہیں۔ یوں مرد اور عورت کی طرف سے آنے والے 23 ,23 کروموسومز مل کر ایک انسانی بچے کی تخلیق کا عمل شروع کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے انسان کو (نطفہ امشاج) یعنی مخلوط نطفے کی پیداوار کہا ہے۔ یوں جرثومہ پدر اور تخم مادر کے اختلاط (ملاپ) سے ابتدائی خلیہ وجود میں لایا جاتا ہے۔ اس ابتدائی خلیے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اسے تین تاریکیوں یا تین پردوں میں چھپا کر حفاظت کے تمام انتظامات بطریق احسن مکمل کر دیے جاتے ہیں۔ یوں اس نطفے کو تحفظ بھی ملتا ہے اور اس کی پرورش کے تمام تر انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ ان تین حفاظتی پردوں میں سے بیرونی اور پہلا پردہ ’’شکم مادر‘‘ ہوتا ہے پھر رحم مادر اور تیسری حفاظتی دیوار ’’مشیمہ‘‘ یعنی وہ جھلی ہوتی ہے کہ جس میں بچہ محفوظ ہوتا ہے جسے بچہ دانی(Womb) بھی کہا جاتا ہے۔ خالقِ انسان فرماتا ہے:

یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ؕ (سورہ زمر 6)

وہی تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں میں تین تاریکیوں میں ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت دیتا ہے۔

اس آیت میں شکم مادر میں بچے کو تین تاریکیوں یا تین پردوں میں رکھنے کے علاوہ اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ شکم مادر میں خلقت کے مختلف اور پے درپے مراحل سے گزار کر انسان کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے جس کے لیے قرآن مجید نے ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت کی تعبیر استعمال کی ہے۔

کچھ عرصہ قبل جب میڈیکل ٹیکنالوجی نے اتنی زیادہ ترقی نہیں تھی انسان شکم مادر اور رحم کے اندر کے حالات سے بالکل نا آشنا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ بچہ کتنے اور کن کن مراحل سے گزر کر ایک کامل انسان بنتا ہے۔ اگر کسی نے کچھ کہا بھی تھا تو محض گمان اور تخمینے کی بنیاد پر۔ قرآن مجید نے دور قدیم میں ہی شکم مادر اور تخلیق انسان کے تمام حالات اور مراحل سے آگاہ کر دیا تھا کہ جس نے ان سائنسدانوں کو حیران کر کے رکھ دیا تھا جنہوں نے سالہا سال کی محنت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت رحم مادر میں انسانی پرورش کے بالکل وہی حالات بتائے جو قرآن مجید میں سینکڑوں سال قبل ذکر ہو چکے تھے۔ ارشاد ربانی ہے:

اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں شبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے تاکہ ہم (اس حقیقت ) کو تم پر واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔

(سورہ حج، 5)

اور پھر اسی سے متعلق ایک اور آیت میں فرمایا:

پھر ہم نے لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی، پھر ہم نے بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔

(سورہ مؤمنون، 14)

ان دونوں آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان تخلیق کے درج ذیل مراحل سے گزرتا ہے۔

1۔ تراب: یعنی مٹی کہ جس سے ابتدائی انسان ابوالبشر حضرت آدمؑ کی تخلیق ہوئی۔

2۔ نطفۂ امشاج: یعنی مخلوط نطفہ کہ جو تخم مادر اور جرثومہ پدر سے تشکیل پاتا ہے۔

3۔ لوتھڑا: نطفہ سب سے پہلے لوتھڑے کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کو عربی میں علقہ کہتے ہیں۔

4۔ بوٹی: لوتھڑا کچھ دنوں کے بعد بوٹی کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جس کو عربی میں مضغہ بھی کہتے ہیں۔

5۔ ہڈی: اگلے مرحلے میں بوٹی سے ہڈیاں بنا دی جاتی ہیں۔ یوں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔

6۔ گوشت: جب ہڈیوں کا ڈھانچہ مکمل ہو جاتا ہے تو پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔

7۔ خلق آخر: سب سے پہلے نطفہ ٹھہرایا گیا پھر اس سے لوتھڑا بنا، پھر اس لوتھڑے سے بوٹی تشکیل پائی اور پھر اس بوٹی کو ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کیا گیا۔ جب ہڈیوں پہ گوشت چڑھانے کا عمل مکمل ہوا تو اب وہ ایک خلق آخر ہے یعنی ایک دوسری اور نئی خلقت میں ہے جو پہلے والی حالتوں سے یکسر مختلف ہے۔ (یعنی روح پھونک دی جاتی ہے)

یوں انسان ان سات مراحل سے گزر کر دنیا میں قدم رکھتا ہے اور اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے یہی انسان جب تھوڑا سا ہوش سنبھالتا ہے تو عدم سے وجود تک کے سارے مراحل فراموش کر دیتا ہے اور اصلاً یہ سوچنا بھی گورا نہیں کرتا کہ جس نے اسے وجود بخشا مرنے کے بعد دوبارہ اسی کے سامنے اس کو جوابدہی کے لیے پیش بھی ہونا ہے۔ دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ کر دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے حالانکہ اس کے خالق نے عدم سے بقا ء تک کے تمام مراحل کو اپنی کتاب قرآن مجید میں ذکر بھی کر دیا ہے:

اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر کرتے ہو حالانکہ

1۔ تم بے جان تھے تو اللہ نے تمہیں زندگی دی

2۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا

3۔ پھر (آخر کار) وہی تمہیں زندہ کرے گا

4۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (بقرہ، 28)