اسلامی تعلیمات

باب 10 - عمل اور ردعمل - الٰہی قانون

روز مرہ زندگی میں ہم جو عمل بھی انجام دیتے ہیں ہماری زندگی پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے نہ صرف اعمال بلکہ ہمارے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی سوچ بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔ تاہم اچھے کام اور اچھی سوچ کا اثر بھی اچھا ہوتا ہے۔ برے کام اور بری سوچ کا انجام بھی برا ہوتا ہے۔ اور بہت سی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ جس طرح گندے نالے کے کنارے بنائے گئے خوبصورت گھر میں نالے کی بدبو، خوشبو میں تبدیل نہیں ہوتی بالکل اسی طرح برے اعمال اور برے خیالا ت میں پلنے والا خوبصورت اور حسین انسان بھی ان اعمال اور خیالا ت کے اثر (ردعمل) سے بچ نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام نے ہمیں نہ صرف برے اعمال بلکہ برے خیالات سے بھی روکا ہے تاکہ ہم اپنے اندر کے انسان کو خوبصورت بنا سکیں۔

قرآن مجید نے ہمیں بارہا یاد دہانی کرائی ہے کہ ایسا ہر گز نہیں کہ تم اپنی مرضی سے جو چاہو کرتے پھرو اور پھر تم سے اس بارے باز پرس ہی نہ کی جائے بلکہ یہ کتاب ہر قدم پر ہمیں خبردار کرتی ہے کہ دیکھو! تم اپنے سے بڑی کسی ذات کے سامنے جوابدہ ہو۔ لہٰذا ہر کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرو کہ اس ذات نے اس کام کا بدلہ کسی صورت میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ثواب کی صورت میں یا عذاب کی صورت میں:

وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ (سورہ زمر، 70)

اور ہر شخص نے جو عمل کیا ہے اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

اور ایسا نہیں ہے کہ نیک اور بد دونوں کو ایک سا معاوضہ دیا جائے بلکہ قرآنی اصول یہ ہے کہ:

کیا برے کام کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں ایمان لا کر نیک اعمال بجا لانے والوں میں قرار دیں گے اور ان کی زندگی اور موت ایک جیسے ہوں گے (اگر یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں تو) یہ لوگ بہت برا فیصلہ کرتے ہیں۔ (سورہ جاثیہ 26)

اور ہاں یہ بات بھی ذہن میں ہے کہ کسی برائی کو چھوٹا سمجھ کر اور حقیر جان کر انجام دینا بے وقوفی ہے اور کسی چھوٹی نیکی کو حقیر جان کر چھوڑنا بھی اپنا ہی نقصان ہے اس لیے کہ برائی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ہر دونوں صورت میں اس کا بدلہ ملے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ۔وَ من یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ (سورہ زلزال 7،8)

پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ (قیامت کے دن) اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

قرآن مجید نے نیک اعمال کا صلہ جنت جب کہ برے اعمال کا بدلہ دوزخ کو قرار دیا ہے۔ یعنی نیک اعمال والے جنت میں جب کہ برے کاموں والے دوزخ میں داخل ہوں گے۔

البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے او راس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ میں ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گئے اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں یہ لوگ اہل جنت ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورہ بقرہ 81، 82)

غور کرنے کی بات ہے کہ بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ہم بذات خود نیکی انجام نہیں دیتے بلکہ کسی شخص کو نیک کام کی طرف ہدایت اور رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس نیک کام کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بن جاتے ہیں یا پھر اس کے برعکس اپنے ہاتھ سے برائی انجام نہیں دے رہے ہوتے ہیں البتہ اس برے کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کر کے اس کی راہ ہموار کر دیتے ہیں یا پھر خدا نخواستہ کسی کو برائی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور وہ ہماری وجہ سے برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو ان دونوں صورتوں میں بھی خدا تعالیٰ ہمیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ تم جس طرح کے کام میں معاون بنے ہو اسی طرح کا اجر تمہیں بھی ملے گا۔

جو اچھی بات میں کسی کی سفارش کرے گا اسے بھی اس میں سے حصہ ملے گا اور جو کوئی بری بات میں سفارش کرے گا اس میں سے ایک بوجھ اس پر بھی ہوگا۔ (سورہ ن 85)

انسانی عقل تو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کوئی جس قدر نیکی بجا لائے اسی قدر انعام ہونا چاہیے اور کوئی جس قدر برا کام انجام دے اسی حساب سے ہی اسے گناہ ملنا چاہیے۔ مگر اللہ کی ذات نے اپنے بندوں پر خصوصی لطف و کرم فرمایا اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ جو نیک کام کرتا ہے اس کو دس گنا ثواب ملتا ہے اور برائی کرتا ہے اس کو اتنی ہی سزا ملتی ہے۔ بلکہ اس نے توبہ اور مغفرت کا دروازہ اضافی کھول رکھا ہے اور نہی عن المنکر کر کے اس انسان کو معروف کا حکم دے کر نیکی کی راہ کو کھلا اور برائی کا سدباب بھی کیا ہے تاکہ وہ برائی چھوڑ کر نیکی کی راہ پر آجائے۔

تو یہ بات سنت الٰہی ہے کہ نیک کام کا بدلہ کئی گنا زیادہ جبکہ برے کام کا بدلہ، برائی کے برابر دیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ قرآن مجید ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر کوئی تم سے برائی کر بھی دے تب بھی تم اچھائی سے ہی پیش آؤ کیونکہ اس کا فائدہ بالآخر تمہیں ہی ہو گا۔

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ﴿۳۴﴾ (سورہ حم سجدہ 34)

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی ددست بن گیا ہے۔

اہم نکات:

1۔ کوئی بھی کام ردعمل سے خالی نہیں ہے اچھے کام کا ردعمل اچھا جبکہ برے کام کا ردعمل برا۔ (لہٰذا عمل اور ردعمل کا قانون الٰہی اور خدائی قانون ہے نہ کہ نیوٹن کی طرف منسوب قانون)

2۔ عمل اگرچہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ضائع نہیں ہوتا۔

3۔ خدا نے اپنے لطف سے نیکی کا اجر کئی گنا دینے جب کہ برائی کا صرف اس جتنا ہی بدلہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بلکہ برائی کرنے والے انسان کے لیے توبہ اور مغفرت کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے اور نہی عن المنکر کر کے اس انسان کو امر بالمعروف کا حکم دے کر نیکی کی راہ کو کھلا اور برائی کا سدباب بھی کیا ہے۔

4۔ برائی کا بدلہ اگر نیکی سے دیا جائے تو دشمن کو بھی دوست بنایا جا سکتا ہے۔