اسلامی تعلیمات

باب 18 - قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)

ویسے تو اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوقات ہی اچھی لگتی ہیں مگر انسان کے ساتھ خالق کو خاص پیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے خلیفۃ اللہ فی الارض یعنی کائنات میں اپنا نائب بھی بنایا ہے۔ اور جب پہلی بار اس کی خلقت فرمائی تھی تو ڈھانچہ بنانے کے بعد اس کے اندر اپنی روح ڈالی تھی۔ یہ اپنی اس مخلوق سے محبت کا اظہار ہی تو تھا کہ سب سے پہلے اپنا نمائندہ (یعنی حضرت آدمؑ)، ہادی کے روپ میں بھیجا اور پھر اس کے بعد انسانی نسل چلائی تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی انسان ہادی کی ضرورت تو محسوس کرے مگر اس کی ہدایت کرنے والا کوئی نہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضرت آدمؑ کے بعد ’’ہدایت‘‘ کے اس سلسلے کو یکے بعد دیگرے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو بھیج کر جاری رکھا۔ جب بات سید المرسلین تک پہنچی تو یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہی’’ خاتم المرسلین‘‘ بھی ہیں۔ یعنی نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ اب یہیں روک دیا گیا ہے۔ مگر تم پریشان نہیں ہونا کیونکہ ہدایت کا سلسلہ تو ہمیشہ جاری رہے گا۔ مگر کیسے؟

رحلت رسول سے قبل ہی ’’ہدایت‘‘ کے تمام اسباب مہیا کر دیئے گئے تھے۔ صرف اعلان کرنا باقی تھا۔ اور بالآخر وہ وقت بھی آن پہنچا تھا کہ رسول اپنے بعد جاری رہنے والے سلسلہ ہدایت کا اعلان کرتے ہوئے فرما رہے تھے:

انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ و عترتی اہل البیتیؑ ( الحدیث )

’’لوگو! میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں (جو تمھاری ہدایت کی ضامن ہیں) ایک قرآن مجید اور دوسری میرے اہل البیتؑ اور ہاں یاد رکھو! اگر تم ان دونوں سے ہدایت پاتے رہے تو پھر کبھی گمراہ نہ ہو گے (تمہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ) قرآن اور میرے اہل البیتؑ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پہ مجھ سے آ ملیں‘‘۔

اس بات سے بڑھ کر روشن تر حقیقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن اور اہل البیتؑ میں جدائی کا اصلاً امکان ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے دیکھا کہ جب احکام الٰہی قرآن مجید کی آیات کی صورت میں نازل ہوتے ہیں تو میدان عمل میں ان احکام پر اہل بیتؑ پر سبقت لے جانے والا کوئی نہیں ہے۔ یعنی آیات قرآنی کی عملی تفسیر دیکھنا ہو تو اہل البیتؑ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ملے گا۔ دوسری جانب یہی قرآن مجید اہل بیتؑ رسول کے خلوص کی تعریف کرتا ہے اور ان کے بے مثل و بے نظیر کارناموں کو اپنی آیات میں سراہتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف قرآن مجید کی آیات بلکہ قرآن کی پوری کی پوری سورتیں ان کے نام سے موسوم ہوئی ہیں۔ سورہ محمد، محمد و آل محمدؐ کا آئینہ قرار پائی، سورہ دہر انہی حضرات کی قصیدہ خواں ہے اور سورہ کوثر میں انہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداوند نے رسولؐ کے دشمن کو ابتر قرار دے کر اپنے نبی کو ’’خیر کثیر‘‘ کی خوشخبری سنائی اور جس طرح حضرت امام حسینؑ کو باقی آئمہ میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے اسی طرح سورہ فجر کو حسینؑ ابن علیؑ کا سورہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں صراحتًا یا اشارتاً اہل بیتؑ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تذکرہ ہوا ہے، ان آیات میں سے آیت تطہیر کو اہل بیت کا نام لے کر انہیں خصوصی طور پر نوازے جانے کا صریحاً اعلان کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ارشاد قدرت ہے:

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (سورہ الاحزاب 33)

اللہ کا بس یہی ارادہ ہے۔ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

احادیث کی معتبر کتابیں جیسی صحیح مسلم، صحیح ترمذی، مسند احمد ابن حنبل، المستدرک، احکام القرآن اور دیگر بیسیوں بنیادی کتابوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تصریح فرمائی ہے کہ اس آیت میں ’’اہل البیتؑ‘‘ سے مراد علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ اس حدیث کو اہل سنت نے چالیس طرق سے اور اہل تشیع نے تیس طرق سے نقل کیا ہے۔ یوں مجموعاً ستر طرق سے یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے کہ قرآن میں جن اہل بیتِ رسولؐ کی پاکیزگی کی گواہی دی گئی ہے ان سے مراد علیؑ و فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ ہیں۔

آیہ تطہیر کے نزول کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ’’اہل بیت‘‘ کا صرف اعلان کیا تھا مگر واقعہ مباہلہ سے متعلق آیات کے نزول کے بعد عملًا بتا دیا تھا کہ ان کے اہل البیتؑ سے مراد کون لوگ ہیں۔

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ (سورہ آل عمران 61)

خدا کی طرف سے عیسائیوں کے ساتھ حکم مباہلہ آجانے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیٹوں، اپنی عورتوں اور اپنے نفوس کو میدان میں لے کر جانا تھا مگر آپؐ صرف حضرت علیؑ و فاطمہؑ اور حضرات حسنینؑ کو لے کر گئے اور جب عیسائیوں نے شکست تسلیم کی تو آپ نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اور کہا:

اللھم ھؤلاء اھل بیتی یعنی خدایا یہی (علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ) میرے اہل البیتؑ ہیں۔

ان دونوں آیات سے یہ تشخیص ہو جاتی ہے کہ اہل البیت سے مراد کون لوگ ہیں۔

محمدؐ و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنا

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا﴿۵۶﴾ (سورہ الاحزاب 56)

اللہ اور اس کے فرشتے یقیناً نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔

جب آیت صلوٰۃ نازل ہوئی تو متعدد اصحاب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آپ پر درود بھیجنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درج ذیل طریقے سے درود بھیجنے کا حکم دیا۔

اللّھم صل علی محمد و آل محمد کما صلّیت علیٰ ابراھیم و علیٰ آل ابراھیم و بارک علیٰ محمد و آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم و علیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید

اس روایت کو بھی متعدد طرق سے نقل کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دم بریدہ صلوٰۃ بھیجنے سے سختی سے منع فرمایا جب پوچھا گیا کہ دم بریدہ صلوٰۃ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ تو فرمایا:

یہ کہ کوئی مجھ پر تو صلوات بھیجے مگر میری آل پر درود نہ بھیجے۔

لہٰذا ضرور ی ہے کہ جو کوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صلوات بھیجے ان کی ذریت پر بھی صلوات بھیجے۔