اسلامی تعلیمات

باب 20 - خدا پسند تمنائیں

بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن میں انسان بے بس و لاچار واقع ہوا ہے۔ اگرچہ وہ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں ہے اور دوسری جانب زمین کی وسعتوں سے نکل کر چاند اور مریخ پر زندگی بسانے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود اس کی روزمرہ زندگی میں بارہا ایسے مراحل آتے ہیں کہ جب اسے مجبوراً بے انتہا اختیارات کی مالک اور ہر چیز پر قادر ذات کی طرف التجائیہ نگاہوں سے سر اٹھا کر دیکھنا پڑتا ہے۔

جب بھی کبھی ایسا مرحلہ آتا ہے کہ تمام تر کوشش کے بعد بھی انسان اپنی مشکل کو اپنے سے دور نہیں کر پاتا تو وہ ہمیشہ قادر مطلق ذات کا سہارا مانگتا ہے۔ اپنی کوئی بھی تمنا، مراد، خواہش یا دل کی حسرت پوری کرنے کی غرض سے وہ خداوند متعال کی ذات سے لو لگاتا ہے اور دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان تمناؤں اور دعاؤں کا ذکر کیا ہے جو اس کی ذات کو بہت پسند ہیں انسان کو چاہیے کہ اپنے رب سے ہر وقت ان چیزوں کی تمنا اور دعا کرتا رہے۔ آئیے خداوند متعال کی ذات سے ان تمنا ؤں کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے خالق سے وہ دعائیں مانگ لیتے ہیں جو اس کو پسند ہیں۔

دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی:

قرآن مجید میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے اللہ سے صرف دنیا کی اچھائی مانگتے ہیں وہ اسے سخت ناپسند ہیں، بلکہ فرمایا کہ تم مجھ سے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگا کرو اور یوں دعا کیا کرو۔

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۲۰۱﴾ (سورہ بقرہ 201)

اے ہمارے پالنے والے! ہمیں دنیا بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا

شرح صدر مانگیے:

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰؑ کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانے اور انہیں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو اس مشکل گھڑی میں حضرت موسیٰؑ نے اپنے خدا سے ایک دعا مانگی تھی۔ ہمیں بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو خدا کی ذات سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے دل کو کشادہ کر دے اور ہماری مشکل کو آسان بنادے۔ آیئے! دعا مانگتے ہیں۔

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾ وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾ وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۸﴾ (سورہ طہ 25 تا 28)

(موسیٰ) نے کہا: میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔

کائنات کے راز دیکھ کر دست بدِعا ہو جائیں:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دعا کی قبولیت کا ذکر کیا اور بتا یا ہے کہ وہ لوگ دعا سے قبل کیا کام کرتے ہیں اور پھر دعا کن الفاظ میں مانگتے ہیں اور پھر ان کی دعا کا اثر کس طرح ہوتا ہے اور وہ کس طرح منزل قبولیت تک پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے ہاتھ بارگاہ ایزدی میں اٹھا کریوں گویا ہوتے ہیں۔

ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا تیر ی ذات (ہر عبث سے) پاک ہے پس ہمیں عذاب جہنم سے بچالے۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جسے جہنم میں ڈالا اسے یقیناً رسوا کیا پھر ظالموں کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو گا۔ اے ہمارے رب! ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا: اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے تو اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہماری خطاؤں کو دور فرما اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرما۔ پروردگارا! تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ ہمیں عطا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (سورہ آل عمران 191 تا194)

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دعائیہ کلمات اور خدا پسند تمنائیں ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اس کو ان لوگوں کی دعا کا انداز بہت پسند آیا ہے اور اس نے ان کی دعا قبول کر لی ہے۔

پروردگار! ہمارا بوجھ ہلکا فرما

انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی، کوتاہی اور سستی اس کا معمول ہے۔ گناہ اور معصیت سرزد ہو جانے کے بعد فوراً خدا کی بارگاہ میں جھک جانا چاہیے اور اپنے رب کو یوں پکارنا چاہیے۔

پروردگارا!ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو اس کا مواخذہ نہ فرما، پروردگارا! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈال دیا تھا، پروردگارا! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ، پروردگارا! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مالک ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔ (سورہ بقرہ 286)