اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو عبث خلق نہیں فرمایا کائنات کی تخلیق کی غرض و غایت کی تکمیل ہدایت سے ہوتی ہے لہٰذا ہدایت کا سامان فراہم کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے چونکہ ہدایت اللہ کی رحمتوں کی سر فہرست ہے اس لیے فرمایا:
کتب ربکم علی نفسہ الرحمہ (اللیل 12)
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے ذمہ واجب گردانا ہے۔
کوئی اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی بات لازم قرار نہیں دے سکتا خود اللہ تعالیٰ یہ ذمہ داری اپنی ذات پر لازم قرار دے سکتا ہے۔ ہدایت کی دو قسمیں ہیں ایک راستہ دکھانا اور دوسری منزل تک پہنچانا جو ہدایت اللہ پر لازم ہے وہ راستہ دکھانا ہے منزل تک پہنچ جانا بندے کی ذمہ داری ہے۔ انا ھدیناہ السبیل امّا شاکراً وامّا کفوراً۔ (سورہ دھر3)
اللہ کی طرف سے آنے والی سعادت بھری ہدایت کو اس کے بندوں تک پہنچانے والے اللہ کے اور بندوں کے درمیان ذریعہ بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے جو سامان فراہم کیا یہ مبلغ اس سامان کا حصہ بن جاتا ہے کس قدر عظیم مقام ہے مقام مبلغ، یہاں سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھ سکتے ہیں جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی طرف تبلیغ کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا:
یا علی!لأن یھدی اللّٰہ بک رجلا واحدً خیر لک من الدنیا وما فیھا
اے علی! یہ بات کہ اللہ آپ کے ذریعہ ایک شخص کی ہدایت کرتا ہے کہ یہ آپ کے لیے دنیا وما فیھا سے بہتر ہے۔
اس جگہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک نہایت قابل توجہ حدیث منقول ہے کہ:
اوحی اللّٰہ تعالیٰ الی موسیٰ علیہ السلام: حببنی الی خلقی وحبب خلقی الی قال یا رب کیف افعل؟ قال ذکرھم آلائی ونعمآی لیحبونی، فلأن ترد أبقآ من بابی او ضآ لا عن فنائی افضل لک من عبادۃ مأۃ سنۃ بصیام نھار ھا و قیام لیلھا۔ قال موسیٰ: بومن ھذا لعبد الآبق منک قال العاصی المتمرد۔ قال: فمن الضال عن فنایّک؟ قال: الجاھل بامام زمانہ تعرفہ والغائب عنہ بعد ما عرفہ، الجاھل بشریعۃ دینہ تعرفہ شریعتہ وما یعبدبہ ربہ ویتوصل بہ الی مرضاتہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ مجھے لوگوں پر اور لوگوں کو میرا محبوب بناؤ عرض کیا: اے رب !یہ عمل میں کس طرح انجام دوں؟ فرمایا: انہیں میری رحمتوں اور نعمتوں کو یاد دلا دو وہ مجھ سے محبت کریں گے اور یہ بات کہ تو اگر میرے ہاں سے بھاگے ہوئے غلام کو واپس کرے اور میری بارگاہ سے گمراہ شدہ شخص کی ہدایت کر دے تو یہ کام تیرے لیے ایسے ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور رات عبادت میں گزاری ہو۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ آپ کا بھاگا ہوا غلام کون ہے؟ فرمایا: وہ گناہ گار سرکش ہے۔ عرض کیا: آپ کی بارگاہ سے گمراہ ہونے والا کون ہے؟ فرمایا: جو اپنے زمانے کے امام کو نہ جانتا ہو تو اسے پہنچوا دے اور اس کو جاننے کے بعد (اس کے ذہن سے) غائب ہو (اس کو یاد دلا دے) اور جو اپنے دین کے دستور کو نہ جانتا ہو اس کو دین کا دستور سمجھا دے اور اپنے رب کی بندگی کا طریقہ سکھا دے اور اللہ کی خوشنودی تک رسائی حاصل کرنے کا سلیقہ سمجھا دے۔
قال علی بن الحسین علیھما السلام
بابشروا علماء شیعتنا بالثواب الاعظم والجزاء الاوفر (مستدرک الوسائل17/ 319)
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
ہمارے علماء کو اس عظیم ثواب اور وافر جزائے خیر کی بشارت دے دو۔
میں اپنے جامعۃ الکوثر کے طالب علموں کو (جو اس وقت علماء شمار ہوتے ہیں) بشارت دیتا ہوں کہ آپ کو اپنی طالب علمی کی زندگی میں ہی اس ثواب اعظم اور جزائے اوفر کی توفیق حاصل ہے اور اس عظیم دینی خدمت کے ذریعہ ہمارے معاشرے کو محمدؐ وآل محمدؐ کی تعلیمات سے آشنا کرنے کی سعادت حاصل ہے جس سے آپ کے مستقبل کے تابناک ہونے پر اچھے اثرات مترتب ہوں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
اسلامی تعلیمات
تعارف
اسلامی تعلیمات
انتساب
اپنی بات
تمہید
تقریظ
قرآنیات
کورس کا تعارف اور اہداف
قرآن مجید کا تعارف
فضائل قرآن بزبان قرآن
فضائل قرآن بزبان معصوم
آداب تلاوت قرآن مجید
ثوابِ تلاوت قران مجید
جمع قرآن
عدم تحریف قرآن
قرآن مجید کی جاذبیت
انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
قرآنی چیلنج
انسان کی خلقت
عمل اور ردعمل
قرآن اور حیوانیات - Zoology
قرآن اور حیوانیات - Zoology 2
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ
قصہ آنے والے دن کا
قصہ آنے والے دن کا (2)
قرآن مجید دعوت فکر
اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)
خدا پسند تمنائیں
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
عقائد
کورس کا تعارف اور اہداف
اصول دین
اثبات وجود خدا
خدا کی صفات اور توحید
توحید خدا پر دلائل
توحید کی اقسام
تجسیم خدا
عدل
قسمت کا کھیل
نبوت
معجزہ
قرآن مجید اور آسمانی کتابیں
امامت
محبت اہل بیت علیہم السلام
عقیدہ توسل
شفاعت
مہدویت
رجعت
قیامت
حساب و کتاب
تقیہ
اخلاقیات
کورس کا تعارف اور اہداف
اخلاق
جھوٹ
دوسروں کے مال کا استعمال
نخوت و تکبر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ایک مفید ملاقات
غصہ اور گالی گلوچ
دعا
حسد
ضیاع وقت
مؤمن کی اہانت
ملاقات مؤمن حصہ اول
ملاقات مؤمن حصہ دوم
ضیافت و زیارت
صلہ رحمی و قطع رحمی
قطع رحمی
بخل و اسراف
بخل
اسراف
دوستی
احترام والدین
حقوق والدین
بری صحبت
موسیقی
احکام
کورس کا تعارف اور اہداف
احکام خمسہ
تقلید
نجاسات
مطہرات
وضو
وضو کی شرائط
واجب غسل
طریقہ غسل و تیمم
واجب نمازیں
واجبات نماز
مکروہات نماز
روزہ
احکام میت
نمار میت کا طریقہ
نماز جمعہ، نماز آیات، نماز عیدین
نگاہ
مسجد
کھانا کھانے کے آداب
سونے اور رفع حاجت کے آداب
بیت الخلاء کے احکام
تجوید کے احکام
تعریف اور حرکات
لحن
مخارج 1
مخارج 2
مخارج 3
صفات
نون ساکن اور تنوین کے احکام
میم ساکن کے احکام
سکون
وقف کے احکام
تقریظ
استاذ العلماء، محسن ملت، حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ الشیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی
سرپرست اعلیٰ جامعۃ الکوثر، اسلام آباد
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد لولیہ والصلوۃ علی نبیہ والمیامین من آلہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ
اِنّ علینا للھدیٰ
راستہ دکھانا ہماری ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو عبث خلق نہیں فرمایا کائنات کی تخلیق کی غرض و غایت کی تکمیل ہدایت سے ہوتی ہے لہٰذا ہدایت کا سامان فراہم کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے چونکہ ہدایت اللہ کی رحمتوں کی سر فہرست ہے اس لیے فرمایا:
کتب ربکم علی نفسہ الرحمہ (اللیل 12)
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے ذمہ واجب گردانا ہے۔
کوئی اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی بات لازم قرار نہیں دے سکتا خود اللہ تعالیٰ یہ ذمہ داری اپنی ذات پر لازم قرار دے سکتا ہے۔ ہدایت کی دو قسمیں ہیں ایک راستہ دکھانا اور دوسری منزل تک پہنچانا جو ہدایت اللہ پر لازم ہے وہ راستہ دکھانا ہے منزل تک پہنچ جانا بندے کی ذمہ داری ہے۔ انا ھدیناہ السبیل امّا شاکراً وامّا کفوراً۔ (سورہ دھر3)
اللہ کی طرف سے آنے والی سعادت بھری ہدایت کو اس کے بندوں تک پہنچانے والے اللہ کے اور بندوں کے درمیان ذریعہ بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے جو سامان فراہم کیا یہ مبلغ اس سامان کا حصہ بن جاتا ہے کس قدر عظیم مقام ہے مقام مبلغ، یہاں سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھ سکتے ہیں جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی طرف تبلیغ کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا:
یا علی!لأن یھدی اللّٰہ بک رجلا واحدً خیر لک من الدنیا وما فیھا
اے علی! یہ بات کہ اللہ آپ کے ذریعہ ایک شخص کی ہدایت کرتا ہے کہ یہ آپ کے لیے دنیا وما فیھا سے بہتر ہے۔
اس جگہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک نہایت قابل توجہ حدیث منقول ہے کہ:
اوحی اللّٰہ تعالیٰ الی موسیٰ علیہ السلام: حببنی الی خلقی وحبب خلقی الی قال یا رب کیف افعل؟ قال ذکرھم آلائی ونعمآی لیحبونی، فلأن ترد أبقآ من بابی او ضآ لا عن فنائی افضل لک من عبادۃ مأۃ سنۃ بصیام نھار ھا و قیام لیلھا۔ قال موسیٰ: بومن ھذا لعبد الآبق منک قال العاصی المتمرد۔ قال: فمن الضال عن فنایّک؟ قال: الجاھل بامام زمانہ تعرفہ والغائب عنہ بعد ما عرفہ، الجاھل بشریعۃ دینہ تعرفہ شریعتہ وما یعبدبہ ربہ ویتوصل بہ الی مرضاتہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ مجھے لوگوں پر اور لوگوں کو میرا محبوب بناؤ عرض کیا: اے رب !یہ عمل میں کس طرح انجام دوں؟ فرمایا: انہیں میری رحمتوں اور نعمتوں کو یاد دلا دو وہ مجھ سے محبت کریں گے اور یہ بات کہ تو اگر میرے ہاں سے بھاگے ہوئے غلام کو واپس کرے اور میری بارگاہ سے گمراہ شدہ شخص کی ہدایت کر دے تو یہ کام تیرے لیے ایسے ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور رات عبادت میں گزاری ہو۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ آپ کا بھاگا ہوا غلام کون ہے؟ فرمایا: وہ گناہ گار سرکش ہے۔ عرض کیا: آپ کی بارگاہ سے گمراہ ہونے والا کون ہے؟ فرمایا: جو اپنے زمانے کے امام کو نہ جانتا ہو تو اسے پہنچوا دے اور اس کو جاننے کے بعد (اس کے ذہن سے) غائب ہو (اس کو یاد دلا دے) اور جو اپنے دین کے دستور کو نہ جانتا ہو اس کو دین کا دستور سمجھا دے اور اپنے رب کی بندگی کا طریقہ سکھا دے اور اللہ کی خوشنودی تک رسائی حاصل کرنے کا سلیقہ سمجھا دے۔
قال علی بن الحسین علیھما السلام
بابشروا علماء شیعتنا بالثواب الاعظم والجزاء الاوفر (مستدرک الوسائل17/ 319)
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
ہمارے علماء کو اس عظیم ثواب اور وافر جزائے خیر کی بشارت دے دو۔
میں اپنے جامعۃ الکوثر کے طالب علموں کو (جو اس وقت علماء شمار ہوتے ہیں) بشارت دیتا ہوں کہ آپ کو اپنی طالب علمی کی زندگی میں ہی اس ثواب اعظم اور جزائے اوفر کی توفیق حاصل ہے اور اس عظیم دینی خدمت کے ذریعہ ہمارے معاشرے کو محمدؐ وآل محمدؐ کی تعلیمات سے آشنا کرنے کی سعادت حاصل ہے جس سے آپ کے مستقبل کے تابناک ہونے پر اچھے اثرات مترتب ہوں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محسن علی نجفی