اسلامی تعلیمات

تقریظ

استاذ العلماء، محسن ملت، حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ الشیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی

سرپرست اعلیٰ جامعۃ الکوثر، اسلام آباد

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمد لولیہ والصلوۃ علی نبیہ والمیامین من آلہ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ

اِنّ علینا للھدیٰ

راستہ دکھانا ہماری ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو عبث خلق نہیں فرمایا کائنات کی تخلیق کی غرض و غایت کی تکمیل ہدایت سے ہوتی ہے لہٰذا ہدایت کا سامان فراہم کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے چونکہ ہدایت اللہ کی رحمتوں کی سر فہرست ہے اس لیے فرمایا:

کتب ربکم علی نفسہ الرحمہ (اللیل 12)

تمہارے رب نے رحمت کو اپنے ذمہ واجب گردانا ہے۔

کوئی اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی بات لازم قرار نہیں دے سکتا خود اللہ تعالیٰ یہ ذمہ داری اپنی ذات پر لازم قرار دے سکتا ہے۔ ہدایت کی دو قسمیں ہیں ایک راستہ دکھانا اور دوسری منزل تک پہنچانا جو ہدایت اللہ پر لازم ہے وہ راستہ دکھانا ہے منزل تک پہنچ جانا بندے کی ذمہ داری ہے۔ انا ھدیناہ السبیل امّا شاکراً وامّا کفوراً۔ (سورہ دھر3)

اللہ کی طرف سے آنے والی سعادت بھری ہدایت کو اس کے بندوں تک پہنچانے والے اللہ کے اور بندوں کے درمیان ذریعہ بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے جو سامان فراہم کیا یہ مبلغ اس سامان کا حصہ بن جاتا ہے کس قدر عظیم مقام ہے مقام مبلغ، یہاں سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھ سکتے ہیں جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی طرف تبلیغ کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

یا علی!لأن یھدی اللّٰہ بک رجلا واحدً خیر لک من الدنیا وما فیھا

اے علی! یہ بات کہ اللہ آپ کے ذریعہ ایک شخص کی ہدایت کرتا ہے کہ یہ آپ کے لیے دنیا وما فیھا سے بہتر ہے۔

اس جگہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک نہایت قابل توجہ حدیث منقول ہے کہ:

اوحی اللّٰہ تعالیٰ الی موسیٰ علیہ السلام: حببنی الی خلقی وحبب خلقی الی قال یا رب کیف افعل؟ قال ذکرھم آلائی ونعمآی لیحبونی، فلأن ترد أبقآ من بابی او ضآ لا عن فنائی افضل لک من عبادۃ مأۃ سنۃ بصیام نھار ھا و قیام لیلھا۔ قال موسیٰ: بومن ھذا لعبد الآبق منک قال العاصی المتمرد۔ قال: فمن الضال عن فنایّک؟ قال: الجاھل بامام زمانہ تعرفہ والغائب عنہ بعد ما عرفہ، الجاھل بشریعۃ دینہ تعرفہ شریعتہ وما یعبدبہ ربہ ویتوصل بہ الی مرضاتہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ مجھے لوگوں پر اور لوگوں کو میرا محبوب بناؤ عرض کیا: اے رب !یہ عمل میں کس طرح انجام دوں؟ فرمایا: انہیں میری رحمتوں اور نعمتوں کو یاد دلا دو وہ مجھ سے محبت کریں گے اور یہ بات کہ تو اگر میرے ہاں سے بھاگے ہوئے غلام کو واپس کرے اور میری بارگاہ سے گمراہ شدہ شخص کی ہدایت کر دے تو یہ کام تیرے لیے ایسے ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور رات عبادت میں گزاری ہو۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ آپ کا بھاگا ہوا غلام کون ہے؟ فرمایا: وہ گناہ گار سرکش ہے۔ عرض کیا: آپ کی بارگاہ سے گمراہ ہونے والا کون ہے؟ فرمایا: جو اپنے زمانے کے امام کو نہ جانتا ہو تو اسے پہنچوا دے اور اس کو جاننے کے بعد (اس کے ذہن سے) غائب ہو (اس کو یاد دلا دے) اور جو اپنے دین کے دستور کو نہ جانتا ہو اس کو دین کا دستور سمجھا دے اور اپنے رب کی بندگی کا طریقہ سکھا دے اور اللہ کی خوشنودی تک رسائی حاصل کرنے کا سلیقہ سمجھا دے۔

قال علی بن الحسین علیھما السلام

بابشروا علماء شیعتنا بالثواب الاعظم والجزاء الاوفر (مستدرک الوسائل17/ 319)

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

ہمارے علماء کو اس عظیم ثواب اور وافر جزائے خیر کی بشارت دے دو۔

میں اپنے جامعۃ الکوثر کے طالب علموں کو (جو اس وقت علماء شمار ہوتے ہیں) بشارت دیتا ہوں کہ آپ کو اپنی طالب علمی کی زندگی میں ہی اس ثواب اعظم اور جزائے اوفر کی توفیق حاصل ہے اور اس عظیم دینی خدمت کے ذریعہ ہمارے معاشرے کو محمدؐ وآل محمدؐ کی تعلیمات سے آشنا کرنے کی سعادت حاصل ہے جس سے آپ کے مستقبل کے تابناک ہونے پر اچھے اثرات مترتب ہوں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

محسن علی نجفی