اسلامی تعلیمات

باب 2 - اثبات وجود خدا

انسان ہمیشہ حقیقت کی تلاش اور جستجو میں رہتا ہے چونکہ انسان کی فطرت جستجو اور تلاش کرنا ہے۔ جب ایک چیونٹی کے بارے میں سائنسدان بیس بیس سال تک ریسرچ کرتے ہیں تو ہم اس کائنات کے خالق کے بارے میں ریسرچ کیوں نہ کریں؟ چھوٹی سی چھوٹی چیز بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی تو کیا یہ ستارے، آسمان، زمین اور پوری کائنات بغیر بنانے والے کے بن سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یقیناً اس کائنات کو کوئی بنانے والا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم کائنات کے خالق کو کیسے پہچانیں؟

خدا کی پہچان کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں:

٭نشانیوں کے ذریعے

ہزاروں سال پہلے والا اگر کوئی ایک برتن ہمیں مل جائے تو اس برتن سے ہزار سال قبل کے حالات وغیرہ معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ زمین پر شیر کے قدموں کے نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یقیناً آس پاس موجود ہے۔ اگر کہیں سے دھواں اٹھتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آگ لگی ہے۔ ہم ان نشانیوں کے ذریعے آگ، شیر، ہزار سال قبل کے حالات کو جان سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کون سی نشانیوں کے ذریعے ہم خدا کو پہچان سکتے ہیں؟

٭ انسان اپنے آپ کا مشاہدہ کرے

انسان کا جسم مکمل فیکٹری کی حیثیت رکھتا ہے۔ غذا کا معدے سے خون میں تبدیل ہونا، دل کا خون کو جسم کے تمام مقامات تک پہنچانا، پھیپھڑوں کا سسٹم، یہ سارا جسم اتنا پیچیدہ سسٹم رکھتا ہے کہ آج تک سائنسدان مکمل طور پر اس کے رازوں کو نہیں جان سکے۔ اگر انسان خود کو دیکھے گا تو وہ کہے گا کہ میرا کوئی خالق ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَفِیْ خَلْقِکُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔ (سورہ الجاثیہ4)

اور تمہاری خلقت میں اور ان جانوروں میں جنہیں اللہ نے پھیلا رکھا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لئے نشانیاں ہیں۔

ایک شخص سے حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ:

میں نے اپنے وجود پر نظر کی تو پتہ چلا کہ یقیناً اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ تو میں نے اس کے وجود کو مان لیا۔

اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ عَرَفَ نَفْسَہْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہْ۔

جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے مالک کو پہچان لیا۔

٭ کائنات کا مشاہدہ

انسان اللہ تعالیٰ کی اس وسیع و عریض کائنات کا مشاہدہ کرکے اپنے خالق تک پہنچ جاتا ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لاٰیٰتٍ لِاُوْلِی الْاَلْبَاِبِ (سورہ آل عمران 190)

بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوا:

وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰاتٌ لِّلْمُؤْقِنِیْنَ (سورہ الذٰریٰت:20)

اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔

زمین، سورج، چاند ستاروں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یقیناً ان کا کوئی بنانے والا ہے۔

٭ نظم وضبط

نیوٹن نے نظام شمسی کا سانچہ بنایا۔ اس سانچے میں چھوٹے چھوٹے گیند تھے۔ جو ایک دھاگے سے بندھے ہوئے تھے۔ اور ان کے لیے ایک ہینڈل بنایا تھا جب اس کو چلاتے تھے تو سارے گیند اپنے مدار پر گردش کرتے تھے۔ جیسے سیارے گردش کرتے ہیں۔

ایک دن نیوٹن کا ایک قریبی دوست اس سے ملنے آیا۔ جیسے ہی اس کی نگاہ اس خوبصورت سانچے پر پڑی تو وہ حیران رہ گیا اور چیخ پڑا۔ ارے واہ! یہ تو بہت ہی حیرت انگیز چیز ہے اس کو کس نے بنایا ہے؟ نیوٹن نے کہا اس کو کسی نے نہیں یہ خود بخود بن گیا۔ تو نیوٹن کے دوست نے کہا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو اس کا بنانے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ماہر مکینک ہو سکتا ہے نیوٹن آہستہ سے اٹھا اور اپنے دوست کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا: اے میرے دوست تم دیکھتے ہو کہ یہ ایک نظام شمسی کا سانچہ ہے اور تم اس بات پر بالکل راضی نہیں کہ یہ خود بخود وجود میں آیا تو تم اس بات کو کیسے مان لیتے ہو کہ خود نظام شمسی اپنی تمام تر وسعت اور پیچیدگی کے ساتھ بغیر کسی بنانے والے کے بن گیا؟

جی ہاں! کائنات میں سیاروں اور ستاروں کا خاص ترتیب اور نظم و ضبط سے ہونا کسی دھماکے کے اتفاق کی وجہ سے نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک دھماکہ ہو اور صفحے اڑ کر کتابیں بن جائیں اور پھر خاص ترتیب کے ساتھ الماری میں فٹ ہو جائیں؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

کائنات کی منظم خلقت پر غور کریں تو کسی حکیم و علیم ذات کے وجود کا یقین ہو جاتا ہے۔