اسلامی تعلیمات

باب 6 - قرآن مجید کی جاذبیت

باب 6 - قرآن مجید کی جاذبیت

ابتداء اسلام کا ایک واقعہ ہے کہ طفیل ابن عمرو جو عرب کا بہت ہی شیریں بیاں شاعر اور مفکر تھا وہ ایک عرصے کے بعد مکہ میں داخل ہوا وہ اس شہر میں نو وارد تھا۔ مگر اس بار اسے شہر کی فضا پہلے سے مختلف دکھائی دے رہے تھی۔ وہ جونہی مکہ میں داخل ہوا تھا اس کے دوست اس کی ملاقات کو آگئے تھے ان سب کے چہرے اترے ہوئے تھے اور نہایت پریشانی اور اضطراب کے عالم میں اسے مکہ کی تازہ ترین خبر سنا رہے تھے۔

’’تم شاید محمدؐ امین کو نہیں پہچانتے ہو، وہ کہتا ہے: کہ بتوں میں کوئی قدرت ہی نہیں، بتوں کی پرستش چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو، وہ کہتا ہے: کہ تم سب کے سب اللہ کی مخلوق ہو صرف اسی کی پرستش کرو تمہارا مالک خدا ہے اور تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں نہ دو یہ ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند کر کے ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں ان کی غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو؟ یہی وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم نہیں مانتے اور ہماری اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور حضرت محمدؐ کے پیرو کار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے‘‘۔

طفیل ابن عمرو شیریں بیان شاعر اور مفکر تھا اپنے قبیلہ میں ان کا بڑا اثر و رسوخ تھا ان کا اسلام لانا قریش کے لیے بڑا ہی ناگوار تھا وہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ طفیل جیسا مدبر انسان اسلام کی آغوش میں چلا جائے اس لیے قریش کے روساء اور سیاست کے مداریوں نے چاروں طرف سے اسے گھیرا ہوا تھا۔ کچھ دیر سے محفل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ اچانک آخری کونے سے ایک شخص بول اٹھا:

’’وہ دیکھو طفیل! یہ شخص جو کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھ رہا ہے یہی ہے وہ محمدؐ جس نے نیا دین کھڑا کر کے ہمارے اتحاد و اتفاق کے شیرازہ کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس نے جادوئی انداز میں ہمارے اندر افتراق و انتشار پھیلا دیا ہے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں آپ کے قبیلے میں بھی اس کے سبب انتشار نہ پھیل جائے کتنا ہی اچھا ہو کہ آپ اس سے بات کریں نہ اس کی آواز تک سنیں ‘‘۔

وہ سب باری باری طفیل کو سمجھا رہے تھے:

’’اے بڑے عقلمند اور دانشمند انسان! تم ہر گز اس سے بات نہ کرنا اور اس کی گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھی گمراہ نہ کر دے یہ لو! روئی، اسے اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد ہی مسجد الحرام کا رخ کرنا‘‘۔

اس کے دوستوں کی باتیں طفیل کے دل و روح میں بیٹھ چکی تھیں وہ دل ہی دل میں اپنے دوستوں سے خوش بھی تھا اور ان کا شکر گزار بھی۔ وہ ہر روز جب خانہ کعبہ کے طواف کے لیے جاتا تو اپنی جیب سے روئی نکالتا کانوں میں ڈالتا طواف کرتے ہوئے محمدؐ پر ایک ترچھی نگاہ ڈالتا اور جلدی جلدی طواف کر کے گھر کو لوٹ جاتا۔ ایک روز صبح سویرے طفیل اس حال میں مسجد الحرام میں داخل ہوا کہ اس نے روئی اپنے کانوں میں ٹھونس رکھی تھی۔ طفیل کہتا ہے کہ:

’’میرا دل ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بات بھی کروں میں طواف میں مشغول ہو گیا اچانک میرے دل کے اندر سے مجھے ایک آواز سنائی دی۔ طفیل! تیری ماں تیرے غم میں روئے تو ایک سخنور اور سمجھ بوجھ والا آدمی ہے۔ اے نادان! ان کی بات سن اور دیکھ تو سہی وہ کہتے کیا ہیں۔ اگر انکی بات اچھی ہو تو مان لینا اور اگر نامناسب ہو تو اسے رد کر دینا‘‘۔

یہ آواز سن کر طفیل نے اپنے کانوں سے روئی تھوڑی سی سرکائی، حضرت محمدؐ کی آواز کانوں کے رستے سے طفیل کی روح میں اتر گئی جب اس نے غور کیا تو حضرت محمدؐ خوش لحنی سے قرآن مجید کے عمدہ کلمات کی تلاوت کر رہے تھے طفیل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حضرت محمدؐ نے تلاوت ختم کی اور گھر کی جانب چل پڑے۔ مگر اب طفیل کی روح تڑپ چکی تھی اپنی بے چین روح کی تسکین کے لیے طفیل فوری اٹھا اور حضرت محمدؐ کے پیچھے چلنے لگا اور آپؐ کے گھر پہنچ گیا۔ کہنے لگا:

’’اے محمدؐ! میں نے ان کلمات کی بھنبھناہٹ سنی تھی جن کی آپ تلاوت کر رہے تھے میرا دل چاہتا ہے کہ کچھ دیر وہ کلام سنتا رہوں کیا یہ ممکن ہے کہ آپ میرے لیے کچھ اور کلمات کی تلاوت فرمائیں‘‘۔

آپ نے جو اس کی بات کو غور سے سن رہے تھے تبسم فرمایا اور کہا:

’’وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا تھا۔ تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسی سے درس نہیں پڑھا، مگر کیا تم اور وہ علماء اور دانشور جو سالہا سال درس پڑھتے رہے ہیں اس طرح کا کلام لا سکتے ہو؟ اگر ذرا سا غور کرو تو سمجھ جاؤ گے کہ یہ کلام میرا نہیں بلکہ میرے خدا کا ہے جس نے مجھے نبوت کے لیے چن لیا ہے یہ عمدہ اور پُر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں تو صرف اس کے لانے والا ہوں یہ تمہاری آزادی اور سعادت و خوش بختی کا پیغام ہے طفیل!‘‘

طفیل نے کہا آپ کی قرآن خوانی کی جاذبیت و کشش نے مجھے آپ کی طرف کھینچ لیا ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپؐ قرآن کی تلاوت فرمائیں اور اپنے دین کی حقیقت سے مجھے آشنا کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دین اس کے سامنے پیش کیا اور قرآن کی تلاوت بھی کی طفیل کہتا ہے:

خدا کی قسم ! اس سے زیادہ حسین کلام میں نے ہر گز نہیں سنا تھا۔ نہ اس سے زیادہ معتدل دین میں نے دیکھا تھا۔

طفیل ابن عمرو اسی موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کرتے ہیں اور اپنے قوم و قبیلہ میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں کو شاں رہنے کا وعدہ کر کے اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں۔ جنگ خیبر تک وہ اپنے قبیلے میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور اسی موقع پر اپنے قبیلے کے ستر سے اسّی کنبوں کے ہمراہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آ ملے۔