اسلامی تعلیمات

باب 8 - دعا

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کمزور اور ناتوان خلق کیا ہے مگر یہ انسان ہے کہ جس کی خواہشات اور تمنائیں بہت زیادہ ہیں اور بعض اوقات اپنی ان خواہشات کی تکمیل کے لیے شریعت کی حد تک کو پھلانگ جاتا ہے اور کسی کی نہیں سنتا، بعض اوقات یہ دوسروں کے سامنے اپنی محرومی کا رونا روتا ہے اور ان سے مشکلات کے حل کے لیے التجا کرتا ہے اور کبھی کسی کے دروازے پر تو کبھی کسی کے دروازے پر سر رکھتا ہے اور اپنی محتاجی کا حل تلاش کرتا ہے۔

انسان کی اس محتاجی کی حالت کے پیش نظر خداوند کریم یہ پسند کرتا ہے کہ انسان اپنی احتیاج اپنے مالک و خالق کے سامنے پیش کرئے جس سے خدا تعالیٰ کی ذات بہت خوش ہوتی ہے لہٰذا خداوند متعال کے سامنے اپنی حاجات کو پیش کرنے کا ایک ذریعہ دعا ہے۔ دعا حقیقت میں خداوند متعال کے شکر و کرم کی انواع میں سے ہے۔ یعنی شکر کی ایک قسم ہے اور ایک وسیلہ ہے کہ جو انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے اور اس کی معرفت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے کہ جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے کہ تم دوسروں کے سامنے اپنی ایڑیاں نہ رگڑو بلکہ اپنے رب سے مانگو کہ وہی تم پر سب سے زیادہ مہربان ہے اور رحم کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۔ (سورہ مؤمن:60)

اور تمہارا پروردگار فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ ازراہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقیناً وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

اور اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اگر تم دعا نہیں کرو گے اور اس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤ گے تو اسے بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہو گی اور وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔

چنانچہ اسی سلسلے میں ارشاد رب العزت ہے:

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآؤُکُمْ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا۔ (سورہ فرقان:77)

کہہ دیجیے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا ) لازمی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں یقین دلایا ہے کہ تم مانگو اور مطمئن ہو جاؤ کیونکہ اس نے دعا کو قبول کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْ لِیْ وَلْیُؤْ مِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔ (سورہ بقرہ:186)

اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہہ دیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

اسی طرح اگر ہم سیرت و روایات معصومینؑ میں دیکھیں تو ان میں دعا کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس زمین پر سب سے محبوب ترین عمل دعا ہی کو قرار دیا گیا ہے اور اس کی تاثیر کے بارے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ دعا موت کو ٹال دیتی ہے اس سلسلے میں ہم صرف چند روایات پر اکتفا کریں گے:

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’دعا مؤمن کا اسلحہ اور دین کا ستون ہے اور آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے‘‘۔

اسی طرح پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی مروی ہے کہ:

’’ دعا عبادت کا مغز (نچوڑ) ہے اور دعا کے ہوتے ہوئے کوئی شخص بھی ہلاکت میں نہیں پڑ سکتا‘‘۔

اور حضرت علی علیہ السلام کی وصیت جو امام حسن علیہ السلام کے لیے تھی اس میں امامؑ کی دعا کے بارے میں بہت احسن انداز سے بتایا گیا ہے کہ: ’’یقین رکھو کہ جس کے قبضہ قدرت میں آسمان اور زمین کے خزانے ہیں اس نے تمہیں سوال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم مانگو تاکہ وہ دے، رحم کی درخواست کرو تاکہ وہ رحم کرے اور اس نے اپنے اور تمہارے درمیان کوئی دربان کھڑے نہیں کیے اور اس نے تمہارے ہاتھ میں اپنے خزانوں کی کھولنے والی کنجیاں دے رکھی ہیں اس طرح کہ تمہیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا کہ جب تم چاہو دعا کے ذریعہ اس کی نعمت کے دروازوں کو کھلوا لو اور اس کی رحمت کے جھالوں کو برسا لو‘‘۔

انسان کو اپنی ہر حاجت کے لیے خدا کو پکارنا چاہیئے حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے خداوند عالم کے سامنے دست دراز کرنا اسے بہت پسند ہے۔

امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

اپنی چھوٹی حاجات کو حقیر مت سمجھو کیونکہ خدا کے پسندیدہ مؤمنین وہ ہیں جو ان کے بارے میں بھی خدا سے سوال کرتے ہیں۔

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ’’اے موسیٰ! مجھ سے ہر اس چیز کے بارے میں سوال کرو جس کی تمہیں احتیاج ہو یہاں تک کہ اپنی بھیڑ کے چارے اور اپنے آٹے (میں ڈالنے کے لئے) نمک کے بارے میں بھی احتیاج ہو تو مجھ سے مانگو‘‘۔

چونکہ دعا کرنا ایک عبادت الٰہی بھی ہے اور اس سے دنیا میں مسائل حل کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ:

جنت میں دو شخص داخل ہوں گے جن کے اعمال بالکل ایک جیسے ہوں گے لیکن ایک کے درجات بلند ہوں گے تو دوسرا خداوند کریم سے سوال کرے گا کہ خدایا ہم دونوں کے ایک جیسے اعمال ہیں تو اس کا درجہ بلند کیوں ہے؟ تو جواب آئے گا یہ مجھ سے سوال (دعا) کرتا تھا جبکہ تو نہیں کرتا تھا۔

شرائط دعا

ہم اکثر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ دعا کرتے ہیں مگر ان کی دعا قبول نہیں ہوتی تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں اور نا امید اور مایوس ہو کر اس عبادت الٰہی سے منہ موڑ لیتے ہیں جب کہ معصومین علیہم السلام کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے چند شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ ہم لوگ ان کا خیال رکھے بغیر دعا کرتے ہیں تو در حقیقت وہ دعا ہی نہیں ہوتی۔ ہم مختصراً دعا کی شرائط کا ذکر کرتے ہیں:

1۔ اس کی معرفت ہونی چاہئے جس کو تم پکار رہے ہو۔

2۔ دعا کے ساتھ عمل کا درست ہونا بھی ضروری ہے یعنی دعا کرنے والے کے لیے اطاعت گزار ہونا اور گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہونا ضروری ہے۔

3۔ قبولیت دعا کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ دعا کرنے والا رزق حلال کماتا ہو اور اسی سے اپنا پیٹ بھرتا ہو اور مباح جگہ پر رہتا ہو اور اس نے کسی کا کوئی حق ضائع نہ کیا ہو۔

4۔ دعا کرتے وقت حضور قلب کا ہونا۔

5۔ دعا کرتے وقت خدا سے قبولیت کی امید رکھنا اور مایوس نہ ہونا۔

6۔ دعا کے وقت اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔

7۔ گریہ و زار ی کے ساتھ دعا کرنا۔

8۔ دعا سے پہلے بسم اللّٰہ پڑھنا اور اللہ کی حمد و ثنا بجا لانا۔

9۔ محمد و آل محمد علیہم السلام پر دعا کے شروع میں اور آخر میں صلوات بھیجنا اور دعا کے دوران ان ذوات مقدسہ کو خدا کے حضور وسیلہ قرار دینا۔

10۔ اللہ کے علاوہ باقی سب سے مایوس ہو کر تب تک دعا کرتا رہے جب تک دعا قبول نہیں ہو جاتی۔

11۔ اجتماعی صورت میں دعا مانگنا۔

موانع اجابت

اگر تمام شرائط کے مطابق دعا مانگی جائے اور پھر وہ قبول نہ ہو تو اس کے لیے روایات میں چند موانع کا ذکر ہوا ہے کہ جن کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دعا مرحلہ قبولیت تک پہنچ جائے اور وہ موانع درج ذیل ہیں:

1۔ بعض گناہوں کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ دعا کے قبول ہونے میں مانع بنتے ہیں۔

2۔ ظلم بھی موانع دعا میں شمار ہوتا ہے۔

3۔ بعض اوقات حکمت الھیہ کی وجہ سے بھی تاخیر ہوتی ہے کیونکہ انسان بسا اوقات ایک چیز کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کی دعا کرتا ہے جب کہ خداوند کریم جانتا ہے کہ یہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا اس کی استجابت میں تاخیر کرتا ہے یا پھر اگر قبول نہ بھی ہو تو اس کا اجر قیامت کے دن اس شخص کو ضرور ملے گا۔

4۔ معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دینا بھی دعا کو قبول ہونے سے روکتا ہے۔

5۔ کسی حرام یا برے کام کے لیے کی گئی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔