اسلامی تعلیمات

باب 9 - حسد

حسد ایک بدترین قلبی گناہ اور مہلک بیماری ہے دیگر گناہوں کی طرح اسے بھی مذموم قرار دیا گیا ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت آدمؑ کو جنت سے نکلنا پڑا کیونکہ شیطان نے ان سے حسد کیا تھا اور ان کو ورغلایا تھا اور پھر دنیا میں سب سے پہلا قتل یعنی جناب ہابیل علیہ السلام کو بھی حسد کا نشانہ بننا پڑا۔ حسد دین و دنیا کی تباہی اور عذابِ آخرت کا سبب ہے مجموعی طور پر اسلام کا فیصلہ یہی ہے کہ ہر حاسد فاسق ہے۔

تعریف

کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یا سن کر کہ مثلاً خدا نے کسی کو مال، اولاد، فضیلت، کمال، علم، شجاعت اور سخاوت عطا کی ہے تو وہ دکھ محسوس کرے اور اسے دوسرے کی نعمات اچھی نہ لگیں اور اس شخص سے ان نعمات کے چھن جانے کی آرزو کرے تو اس حالت و کیفیت کو جو کسی کے دل میں پیدا ہوتی ہے حسد کا نام دیا گیا ہے۔

نوعِ انسان کے تمام افراد مرد و زن امیر و غریب قوی اور کمزور سب میں حسد کی بیماری کا خطرہ موجود ہے۔ اس لیے ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسد کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ خداوند متعال نے اس کو بہت ناپسند فرمایا ہے اور جہاں سورہ فلق میں اللہ تعالیٰ نے چار قسم کی برائیوں کے شر سے بچنے کے لیے اپنی پناہ میں آنے کی تلقین کی ہے تو ان برائیوں میں سے ایک حسد کو شمار کیا ہے۔ یعنی یہ اتنی مذموم اور مہلک برائی ہے کہ اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ (سورہ فلق:5)

اور حاسد کے شر سے (پناہ مانگتا ہوں) جب وہ حسد کرنے لگ جائے۔

اور خداوند متعال نے قرآن مجید میں واضح طور پر یہ بیان کر دیا ہے کہ حسد کرنا کفار کا کام ہے۔

جیسا کہ ارشاد قدرت ہے:

وَدَّکَثِیْرٌ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِکُم ْکُفَّارًاحَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِم ْمِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ۔ (سورہ بقرہ:109)

بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی ایمان کے بعد کافر بنائیں وہ تم سے حسد رکھتے ہیں ورنہ حق ان پر واضح ہے۔

قران مجید کی طرح معصومین علیہم السلام کی ذوات مقدسہ (کہ جن کی پیروی کرنے کو ہم پر لازمی قرار دیا گیا ہے) نے بھی حسد کرنے کے بہت سے نقصانات کی طرف متوجہ کرایا ہے اور اس سے باز رہنے کی تاکید کی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

’’حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حاسد کا دل ہر وقت دوسرے شخص (محسود) کی حسد سے لبریز رہتا ہے اور خدا و آخرت کی یاد سے غافل رہتا ہے۔ اسی لیے وہ نور ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور اس کی دوسری خرابی یہ ہے کہ حسد کرنے والا شخص اپنے عیوب پر نظر نہیں کرتا اور اپنے بے شمار گناہ یاد نہیں رکھتا اور وہ توبہ کی سعادت سے محروم رہتا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’کسی بھی شخص کے دل میں ایمان اور حسد دونوں ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔

حضرت معاذ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث منقول ہے کہ:

نماز، روزہ اور جہاد انسان کو آسمان تک لے جاتا ہے اور جب ملائکہ یہ نیکیاں لے کر پانچویں آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں ایک فرشتہ بیٹھا ہوا ہے جو حاسد کے عمل کو مسترد کر دیتا ہے اور عمل لانے والے فرشتوں سے کہتا ہے اس عمل کو واپس کر دو یہ عمل مقبول نہیں ہے کیونکہ اس عمل کے بجا لانے والا حاسد ہے۔

حسد اور اس کا اظہار دونوں حرام ہیں۔ فقہائے اسلام کا مشہور فتویٰ بھی ہے کہ حسد مطلق طور پر حرام ہے یعنی حسد کا اظہار آنکھ، زبان یا کسی دوسرے اعضاء سے کیا جائے اور اس سے اس شخص محسود (جس سے حسد کیا جائے) کو اذیت پہنچائی جائے یا اس سے نعمت چھین لی جائے۔ دونوں کام حرام ہیں۔ آنکھ سے اظہار حسد اس طرح کیا جاتا ہے کہ کسی دوسرے کو تیز و تند اور غضبناک نگاہوں سے دیکھے اور زبان سے اس طرح ہو گا کہ مال کے چھن جانے پر اپنی خوشی کا اظہار کرے۔ یہ سب کام حسد کے دائرے میں شامل ہیں اور حرام ہیں۔

کیا یہ دنیا اس قابل ہے کہ اس سے حسد کیا جائے؟ اگر آپ دولت و حکومت کے حریص افراد کے حالات پر نظر کریں تو ان کی تمام داستان حیات آپ کو ایسے گھاس پھوس کی طرح دکھائی دے گی جو چند دن تک خوب سرسبز رہا پھر خشکی کی وجہ سے زرد ہوا اور آخر میں ریزہ ریزہ ہو گیا ہو۔ اسی طرح سے حکومت و دولت کے پجاریوں نے دنیا میں چند دنوں تک خوب عیش عشرت کی اور کئی دنوں تک خوب گھوڑے دوڑائے آخر کار مرکر پیوند خاک ہو گئے اور آج ان کی قبروں کے نشان تک باقی نہیں۔ جب دنیا کی حالت ایسی ہو کہ وہ صرف چند روزہ ہو اور اس کو چھوڑ کر آخرت کا سفر کرنا ہر ایک کے لیے یقینی ہو تو ان حالات میں یہ دنیا حسد کیے جانے کی قابل ہی نہیں ہے۔

نقصانات

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی نقصانات اور گناہ کے علاوہ حاسد کو دنیا میں بھی نقصانات اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم یہاں پر صرف چند ایک کو بیان کریں گے:

1۔ ہمیشہ کی تکلیف: حاسد ہمیشہ اندرونی اذیت میں مبتلا رہتا ہے اور اسے ایک لمحہ کے لیے بھی آرام و سکون نصیب نہیں ہوتا کیونکہ حاسد ہمیشہ دوسروں سے نعمت کے چھن جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔

2۔ حسد ابدی ناکامی ہے: حاسد کی ہمیشہ یہ آرزو رہتی ہے کہ لوگوں سے نعمتیں سلب ہو جائیں لیکن اس کی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوتی کیوں کہ ہر شخص کے متعلق خدا نے جو کچھ اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ بہر صورت اسے مل کر ہی رہے گا۔ جب اس کو یہ نعمتیں ملیں گی تو حاسد کی آرزو اور زیادہ شدید ہو جائے گی اور وہ اپنے اس کام میں ہمیشہ ناکام رہے گا اور اس سے وہ ہمیشہ مغموم اور اندر ہی اندر کڑھتا رہے گا۔

3۔ جسمانی بیماری: ہر وقت کی اندرونی بے چینی حاسد کو کمزور اور نڈھال کر دیتی ہے اور اس کا نظام انہضام خراب ہو جاتا ہے اور قوت مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور یوں وہ کئی مہلک جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

4۔ حاسد کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔

5۔ حاسد شخص کے سابقہ اعمال بھی اس کے حسد کی وجہ سے زائل ہو جاتے ہیں۔

علاج

حسد کا علاج تقویت ایمان سے ممکن ہے اور تقویت ایمان کے لیے ضرور ی ہے کہ انسان یہ یقین رکھے کہ امارت و غربت، تندرستی و بیماری اور موت و حیات سب کچھ خدا کی طرف سے ہے۔ ہر چیز خدا کی تدبیر و مصلحت کے تابع ہے جب انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو اس کے ایمان کو تقویت ملے گی اور حسد کی بیماری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ حسد کا عملی علاج یہ ہے کہ بدگمانی ترک کرکے ہمیشہ نیک گمانی کو اپنائے اور یہ کہ اگر کوئی شخص حسد کرنے والا ہو تو اس کی محبت کو ترک کرے کیونکہ حسد ایک متعدی بیماری ہے اگر کسی کے بارے میں حسد کا خیال شروع ہو جائے تو اپنے خیالات کا رخ حسد کی بجائے کائنا ت کے نظم و نسق اور موت و حیات کی طرف کرے یوں ایک شخص حسد کی بیماری سے محفوظ رہ سکتا ہے۔