جب انسانی دماغ نے پہلا کمپیوٹر بنایا تو وہ کم و بیش ایک بڑے کمرے جتنی جگہ گھیرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کا حجم کم مگر فوائد اور استعمال زیادہ ہوتا گیا۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ موجود ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کمپیوٹر کے میدان میں ترقی درجہ بدرجہ حاصل ہوئی۔ صرف کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ دنیا کی کوئی سی بھی چیز دیکھ لیں وہ درجہ بدرجہ ترقی کی طرف بڑھتی ہے اور بالآخر درجہ کمال کو پہنچتی ہے۔ خالق کائنات نے اپنی عظیم ترین مخلوق انسان کو ایک اعلیٰ اور بلند ہدف کی خاطر پیدا کیا اور اس بلند و ارفع مقصد تک پہنچانے کے لیے انسان کو ترقی اور تکامل کے طویل مراحل سے گزارا۔ سب سے پہلے تو زمین اور آسمان کوچھ روز میں خلق کیا اور پھر اگلے چار دن میں زمین پر انسان کی تمام ضروریات زندگی اور ضروری وسائل پیدا کیے۔ اور یوں زمین کو انسان کے لیے قابل سکونت بنادیا۔
اور اس نے چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے مطابق زمین میں سامان خوراک مقرر کیا۔
جب زمین تیار ہو گئی تو پھر خدا تعالیٰ نے انسانی ڈھانچہ تشکیل دیا اور اس میں روح پھونک کر اسے زندہ انسانی شکل دے دی اور اگلے مرحلے میں وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا سے انسان کی فکری ترقی کا سفر شروع ہوا۔ شروع دن سے ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کی ترقی کو علم کا مرہون منت ٹھہرایا اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت کی ابتدائی درسگاہ کھول دی گئی۔ البتہ یہ حضرت نوح علیہ السلام تھے جن کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے پہلا انسانی آئین (شریعت) نازل کیا گیا۔
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا۔
اس سے قبل انسان اپنی فطرت سلیمہ کی روشنی ہی میں اپنی زندگی گزارتا تھا مگر اب اس کو (شریعت نوحؑ) کی صورت میں اضافی قوانین اور اصول متعارف کرائے گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت پہلا الٰہی قانون اور پہلی آسمانی شریعت قراردی گئی۔
پھر دوسری بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مذہب اسلام اور ملت اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم و ملت کا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلی بار اپنے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا۔ اس سے قبل اگرچہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف پہلی الٰہی شریعت بھیجی جا چکی تھی مگر حضرت نوح ؑ کے پیروکاروں کو مسلمان کا لقب نہیں ملا تھا۔ یہ امتیاز حضرت ابراہیمؑ کو حاصل ہے کہ ان کے ماننے والوں کو علیحدہ نام سے ملقب کیا گیا اور یہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا ہی خاصہ ہے کہ ان کے بعد آنے والی تمام شریعتوں کے پیروکار اپنے آپ کو ابراہیمی کہنے پرفخر محسوس کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں اگرچہ مجموعی طور پر انسانی فکر و شعور پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا تھا مگر ابھی تک اس کی عقل اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے لکڑی یا پتھر کے بت سے اسے آزادی نہ دلا پائی تھی۔ حد یہ کہ علم توحید لہرانے والے ابراہیمؑ کا گھر جس میں وہ اپنے چچا کے ہمراہ رہتے تھے۔ علاقے میں بت سازی کا سب بڑا کارخانہ تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود ’’انسانیت‘‘ اس دور میں بھی دوسرا ارتقائی مرحلہ طے کر گئی۔
حضرت ابراہیمؑ کے بعد حضرت موسیٰ ؑکو نئی الٰہی شریعت کے لیے چن لیا گیا۔ جب مصر کی جانب لوٹتے وقت وہ طور سینا پر آگ کے حصول کی خاطر گئے تو خداوند متعال نے ایک درخت کے توسط سے کلام کرکے اپنے کلیم کو بتایا کہ اس نے انہیں ایک نئی شریعت دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ تیسرا الٰہی قانونی مسودہ تھا اور تیسرا انسانی ارتقائی قدم بھی۔ اس مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کلیم اللہ کی امت پر اپنی نعمتیں مکمل کر کے انسان کو ایک اور ارتقائی منزل عطا کی۔
پھر ہم نے موسی کو کتاب عنایت کی تاکہ نیکی کرنے والے پر احکام پورے کر دیں اور اس میں ہر چیز کی تفصیل بیان ہو اور ہدایت اور رحمت کا باعث ہو۔ (سورہ انعام154)
بظاہر تو اللہ تعالیٰ نے امت کلیمی پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں مگر ابھی تک یہ امت اس قابل نہ ہوئی تھی کہ ان کو ایک ابدی منشور دے دیا جائے کہ جس کے بعد کسی نئی شریعت اور نئے الٰہی قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ جس کا واضح ثبوت حضرت موسی کلیم اللہ کے کوہ طور پر جانے کے بعد عصر کلیم کے انسان کا ایک بچھڑے کو خدا ماننے پر آمادہ ہو جانا ہے۔
اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا۔
ان سب ادوار میں اگرچہ انسان نے خاطرخواہ ترقی کی مگر ابھی تک وہ عہد طفولیت میں تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی تربیت و تعلیم کے لیے سمعی و بصری ذرائع (آنکھ سے نظر آنے والے اور کان سے سنائی دینے والے ذرائع) سے کام لیا گیا۔ اور ان سب ادوار میں انہیں ایسے معجزات دکھائے گئے جو محسوسات اور مشاہدات سے تعلق رکھتے تھے۔
اسلامی تعلیمات
تعارف
اسلامی تعلیمات
انتساب
اپنی بات
تمہید
تقریظ
قرآنیات
کورس کا تعارف اور اہداف
قرآن مجید کا تعارف
فضائل قرآن بزبان قرآن
فضائل قرآن بزبان معصوم
آداب تلاوت قرآن مجید
ثوابِ تلاوت قران مجید
جمع قرآن
عدم تحریف قرآن
قرآن مجید کی جاذبیت
انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
قرآنی چیلنج
انسان کی خلقت
عمل اور ردعمل
قرآن اور حیوانیات - Zoology
قرآن اور حیوانیات - Zoology 2
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ
قصہ آنے والے دن کا
قصہ آنے والے دن کا (2)
قرآن مجید دعوت فکر
اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)
خدا پسند تمنائیں
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
عقائد
کورس کا تعارف اور اہداف
اصول دین
اثبات وجود خدا
خدا کی صفات اور توحید
توحید خدا پر دلائل
توحید کی اقسام
تجسیم خدا
عدل
قسمت کا کھیل
نبوت
معجزہ
قرآن مجید اور آسمانی کتابیں
امامت
محبت اہل بیت علیہم السلام
عقیدہ توسل
شفاعت
مہدویت
رجعت
قیامت
حساب و کتاب
تقیہ
اخلاقیات
کورس کا تعارف اور اہداف
اخلاق
جھوٹ
دوسروں کے مال کا استعمال
نخوت و تکبر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ایک مفید ملاقات
غصہ اور گالی گلوچ
دعا
حسد
ضیاع وقت
مؤمن کی اہانت
ملاقات مؤمن حصہ اول
ملاقات مؤمن حصہ دوم
ضیافت و زیارت
صلہ رحمی و قطع رحمی
قطع رحمی
بخل و اسراف
بخل
اسراف
دوستی
احترام والدین
حقوق والدین
بری صحبت
موسیقی
احکام
کورس کا تعارف اور اہداف
احکام خمسہ
تقلید
نجاسات
مطہرات
وضو
وضو کی شرائط
واجب غسل
طریقہ غسل و تیمم
واجب نمازیں
واجبات نماز
مکروہات نماز
روزہ
احکام میت
نمار میت کا طریقہ
نماز جمعہ، نماز آیات، نماز عیدین
نگاہ
مسجد
کھانا کھانے کے آداب
سونے اور رفع حاجت کے آداب
بیت الخلاء کے احکام
تجوید کے احکام
تعریف اور حرکات
لحن
مخارج 1
مخارج 2
مخارج 3
صفات
نون ساکن اور تنوین کے احکام
میم ساکن کے احکام
سکون
وقف کے احکام
باب 7 - انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
باب 7 - انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
جب انسانی دماغ نے پہلا کمپیوٹر بنایا تو وہ کم و بیش ایک بڑے کمرے جتنی جگہ گھیرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کا حجم کم مگر فوائد اور استعمال زیادہ ہوتا گیا۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ موجود ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کمپیوٹر کے میدان میں ترقی درجہ بدرجہ حاصل ہوئی۔ صرف کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ دنیا کی کوئی سی بھی چیز دیکھ لیں وہ درجہ بدرجہ ترقی کی طرف بڑھتی ہے اور بالآخر درجہ کمال کو پہنچتی ہے۔ خالق کائنات نے اپنی عظیم ترین مخلوق انسان کو ایک اعلیٰ اور بلند ہدف کی خاطر پیدا کیا اور اس بلند و ارفع مقصد تک پہنچانے کے لیے انسان کو ترقی اور تکامل کے طویل مراحل سے گزارا۔ سب سے پہلے تو زمین اور آسمان کوچھ روز میں خلق کیا اور پھر اگلے چار دن میں زمین پر انسان کی تمام ضروریات زندگی اور ضروری وسائل پیدا کیے۔ اور یوں زمین کو انسان کے لیے قابل سکونت بنادیا۔
وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۱۰﴾ (سورہ فصلت، 10)
اور اس نے چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے مطابق زمین میں سامان خوراک مقرر کیا۔
جب زمین تیار ہو گئی تو پھر خدا تعالیٰ نے انسانی ڈھانچہ تشکیل دیا اور اس میں روح پھونک کر اسے زندہ انسانی شکل دے دی اور اگلے مرحلے میں وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا سے انسان کی فکری ترقی کا سفر شروع ہوا۔ شروع دن سے ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کی ترقی کو علم کا مرہون منت ٹھہرایا اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت کی ابتدائی درسگاہ کھول دی گئی۔ البتہ یہ حضرت نوح علیہ السلام تھے جن کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے پہلا انسانی آئین (شریعت) نازل کیا گیا۔
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا (سورہ شوریٰ 13)
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا۔
اس سے قبل انسان اپنی فطرت سلیمہ کی روشنی ہی میں اپنی زندگی گزارتا تھا مگر اب اس کو (شریعت نوحؑ) کی صورت میں اضافی قوانین اور اصول متعارف کرائے گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت پہلا الٰہی قانون اور پہلی آسمانی شریعت قراردی گئی۔
پھر دوسری بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مذہب اسلام اور ملت اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم و ملت کا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلی بار اپنے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا۔ اس سے قبل اگرچہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف پہلی الٰہی شریعت بھیجی جا چکی تھی مگر حضرت نوح ؑ کے پیروکاروں کو مسلمان کا لقب نہیں ملا تھا۔ یہ امتیاز حضرت ابراہیمؑ کو حاصل ہے کہ ان کے ماننے والوں کو علیحدہ نام سے ملقب کیا گیا اور یہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا ہی خاصہ ہے کہ ان کے بعد آنے والی تمام شریعتوں کے پیروکار اپنے آپ کو ابراہیمی کہنے پرفخر محسوس کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں اگرچہ مجموعی طور پر انسانی فکر و شعور پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا تھا مگر ابھی تک اس کی عقل اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے لکڑی یا پتھر کے بت سے اسے آزادی نہ دلا پائی تھی۔ حد یہ کہ علم توحید لہرانے والے ابراہیمؑ کا گھر جس میں وہ اپنے چچا کے ہمراہ رہتے تھے۔ علاقے میں بت سازی کا سب بڑا کارخانہ تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود ’’انسانیت‘‘ اس دور میں بھی دوسرا ارتقائی مرحلہ طے کر گئی۔
حضرت ابراہیمؑ کے بعد حضرت موسیٰ ؑکو نئی الٰہی شریعت کے لیے چن لیا گیا۔ جب مصر کی جانب لوٹتے وقت وہ طور سینا پر آگ کے حصول کی خاطر گئے تو خداوند متعال نے ایک درخت کے توسط سے کلام کرکے اپنے کلیم کو بتایا کہ اس نے انہیں ایک نئی شریعت دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ تیسرا الٰہی قانونی مسودہ تھا اور تیسرا انسانی ارتقائی قدم بھی۔ اس مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کلیم اللہ کی امت پر اپنی نعمتیں مکمل کر کے انسان کو ایک اور ارتقائی منزل عطا کی۔
پھر ہم نے موسی کو کتاب عنایت کی تاکہ نیکی کرنے والے پر احکام پورے کر دیں اور اس میں ہر چیز کی تفصیل بیان ہو اور ہدایت اور رحمت کا باعث ہو۔ (سورہ انعام154)
بظاہر تو اللہ تعالیٰ نے امت کلیمی پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں مگر ابھی تک یہ امت اس قابل نہ ہوئی تھی کہ ان کو ایک ابدی منشور دے دیا جائے کہ جس کے بعد کسی نئی شریعت اور نئے الٰہی قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ جس کا واضح ثبوت حضرت موسی کلیم اللہ کے کوہ طور پر جانے کے بعد عصر کلیم کے انسان کا ایک بچھڑے کو خدا ماننے پر آمادہ ہو جانا ہے۔
وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ۙ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ (سورہ حدید 27)
اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا۔
ان سب ادوار میں اگرچہ انسان نے خاطرخواہ ترقی کی مگر ابھی تک وہ عہد طفولیت میں تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی تربیت و تعلیم کے لیے سمعی و بصری ذرائع (آنکھ سے نظر آنے والے اور کان سے سنائی دینے والے ذرائع) سے کام لیا گیا۔ اور ان سب ادوار میں انہیں ایسے معجزات دکھائے گئے جو محسوسات اور مشاہدات سے تعلق رکھتے تھے۔