اسلامی تعلیمات

باب 12 - قرآن اور حیوانیات - Zoology

شہد کی مکھی

وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾ ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۶۹﴾ (نحل 68اور69)

اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے پھر (ہر قسم) کے پھل (کا رس) چوس لے اور اپنے پروردگار کی طرف سے تسخیر کردہ راہوں پر چلتی جائے۔ ان مکھیوں کے شکم میں سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔

قرآن مجید کی ان دو آیات میں بہت ساری باتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود شہد کی مکھی سے گفتگو فرمائی ہے کہ وہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے گھروں میں اپنے چھتے بنائے اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے شہد کی مکھی کے چھتے تک رسائی بھی آسان بنا دی او ربتا دیا کہ پہاڑ، درخت اور تمہارے گھر ان کے ٹھکانے ہیں پھر بتایا کہ یہ مکھیاں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسخیر کردہ راہوں( یعنی اجازت دیے گئے رستے ) پر ہی چلتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مکھیوں کے بنائے گئے مشروب (یعنی شہد) میں اللہ تعالیٰ نے شفا پوشیدہ رکھی ہے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ قدرتی شہد کے ذریعے سینکڑوں بیماریوں سے شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور طب کے میدان میں بیسیوں بیماریوں کے علاج کے لیے شہد سے دوائیاں تیار بھی کی جا رہی ہیں۔ آیت کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔ انسان نے ان مکھیوں اور ان کے نظام کے بارے میں انتھک کوشش کے بعد جو نشانیاں اکٹھی کی ہیں آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

1۔ شہد کی مکھیوں کا گھر(چھتہ) معماری کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے، مکھیاں چھتے میں چو کور شکل کی بجائے مسدس شکل میں خانے بناتی ہیں کیونکہ مسدس شکل میں کوئی کونہ بیکار نہیں جاتا۔

2۔ یہ مکھیاں پھولوں کی جڑوں میں موجود شکر کا خاص مادہ چوستی ہیں۔ باعث تعجب یہ ہے کہ اس سے پھلوں پر بھی بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

3۔ غذا کی تلاش میں نکلنے والی مکھی کو غذا کا ذخیرہ کہیں نظر آجائے تو وہ چھتے میں واپس آتی ہے چھتے کے قریب آ کر ایک خاص قسم کا رقص کرتے ہوئے دائرہ بناتی ہے اور پھر اس دائرے کو مخصوص زاویے سے کاٹتی ہے جس سے دوسری مکھیوں کو پتہ چلتا ہے کہ اس مکھی کو غذا کا جو ذخیرہ ملا ہے وہ کس سمت میں ہے اور کتنے فاصلے پر ہے۔

4۔ انسانی آنکھ میں دو عدسے ہوتے ہیں۔ جبکہ شہد کی مکھی کی ہر آنکھ میں چھ ہزار عدسے ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ باریک سے باریک جراثیم اور گرد و غبار کو دیکھ سکتی ہے۔ یہ ہیں وہ راہیں جو اللہ نے اس کے لیے تسخیر کی ہیں۔

5۔ چھتے کے باہر ہر وقت ایک دربان موجود رہتا ہے جس کا کام غذا لے کر واپس آنے والی مکھیوں کی تلاشی لینا ہے اگر کوئی مکھی گندگی پر بیٹھ چکی ہو تو دربان اسے چھتے کے باہر روک دیتا ہے اور ملکہ اس کو قتل کر دیتی ہے۔ قدرت نے ان مکھیوں کو مختلف مواد کا تجزیہ کرنے کی ایسی صلاحیت دے رکھی ہے کہ انسان شاید بڑی بڑی لیبارٹریز میں ہی ایسا کر سکتے ہوں۔

6۔ شہد کی مکھیاں منظم ہوتی اور ان میں سے ایک ملکہ ہوتی اور باقی سب ملکہ کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔

7۔ شہد کی مکھیوں میں باقاعدہ طور پر محاسبے کا نظام موجود ہے۔ گندگی میں ملوث مکھیوں کو باقاعدہ سزا سنائی جاتی ہے۔

ہدہد کی گفتگو

ہدہد چھوٹا سا ایک پرندہ ہے جس کے سر پر تاج نما ایک کلغی ہوتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں اس ننھے سے پرندے نے ایک عظیم الشان کام کر دکھایا۔

حضرت سلیمانؑ نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا کیا بات ہے مجھے ہدہد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غائب ہو گیا ہے؟ میں اسے ضرور سخت ترین سزا دوں گا یا میں اسے ذبح کر دوں گا مگر یہ کہ میرے پاس کوئی واضح عذر پیش کرے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے حاضر ہو کر کہا:

’’مجھے اس چیز کا علم ہوا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ملک سباء سے آپ کے لیے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اور اسے ہر قسم کی چیزیں دی گئی ہیں اور اس کا عظیم الشان تخت ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا رکھے ہیں اور اس طرح ان کے لیے راہ خدا کو مسدود کر دیا ہے پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (سورہ نمل 22تا 24)

جب حضرت سلیمانؑ نے ہدہد کی حیران کن گفتگو سنی تو ملکۂ سبا بلقیس کو خط لکھنے کا قصد کیا۔ خط کے آغاز میں بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لکھی اور پھر اس کو مذہب حقہ قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ ہدہد نے یہ خط بڑی پھرتی اور عیاری سے ملکہ کے کمرے تک پہنچا دیا۔ جب ملکہ نے اپنی قوم کو اس عجیب و غریب خط سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی رائے مانگی تو انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر سلیمانؑ کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر ملکہ امن پسند تھی اس نے بھاری تحائف دیکر ایلچی حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ کر دیا تاکہ ان کو آزما سکے۔

اُدھر حضرت سلیمانؑ نے بڑی حقارت سے سارے تحائف واپس بھیج دیے اور ایلچیوں کو پیغام دے بھیجا کہ اگر ملکہ ہمارے پاس حاضر نہ ہوئی تو وہ ایک لشکر لے کر چڑھائی کر دیں گے۔ تحائف کے نظرانداز کئے جانے پر ملکہ کو اندازہ ہو گیا کہ سلیمانؑ کشور کشائی یا مال و دولت کی خاطر کچھ نہیں کر رہے لہٰذا ملکہ نے سلیمان کے ہاں آنے کا فیصلہ کر لیا۔

حضرت سلیمانؑ نے دربار والوں کو حکم دیا کہ ملکہ کی آمد سے قبل اس کا تخت میرے پاس بیت المقدس میں ہونا چاہیے۔ آصف بن برخیا نے علم کتاب کے ذریعے ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے ملکہ کا تخت پلک جھپکنے میں حاضر کر دکھایا۔ وہ ملکہ جس کی بت پرستی کی خبر ہدہد نے حضرت سلیمانؑ تک پہنچائی تھی جب آپؑ کے پاس پہنچی تو اپنے تخت کو وہاں دیکھ کر ششدر رہ گئی اور سلیمانؑ اور سلیمانؑ کے خدا پر ایمان لے آئی۔

پیارے دوستو! آپ نے دیکھا کہ ہدہد کی لائی ہوئی چھوٹی سی خبر بہت بڑے واقعے کا سبب بنی اور سارے کا سارا یمن وجود خدا کا قائل ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ