اسلامی تعلیمات

باب 15 - قصہ آنے والے دن کا (2)

انجام

گواہوں کی گواہی مکمل ہو چکی ہے اور اب تو میدان حشر میں نتیجہ بھی آچکا ہے۔ تمام لوگوں کو ان کا رزلٹ کاڑد (نامہ اعمال) دے دیا گیا ہے۔ دائیں ہاتھ میں نتیجہ لینے والے خوش ہیں کہ ان کو دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں، مشکلات اور دکھوں کا ثمر مل گیا ہے۔ ان کی محنت اور صبر ان کے کام آئے ہیں۔ دنیا میں راہ خدا کی طرف اٹھنے والا ان کا ہر قدم درحقیقت انہیں جنت کی جانب لے آیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب الٰہی قوانین اور دستور کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بالکل آزادانہ طرز پر دنیاوی زندگی گزارنے والا، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پرواہ نہ کرنے والا واویلا کر رہا ہے کہ کاش آج مجھے میرا نامہ اعمال دیا ہی نہ جاتا، کاش مجھے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہی نہ کیا جاتا۔ اس کا یہ واویلا سن کر ارشاد قدرت ہو گا۔

اسے پکڑ لو اور طوق پہناؤ حکم آئے گا پھر اسے جہنم میں تپا دو پھر ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اسے جکڑ لو، یقیناً یہ خدا عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں ہے اور پیپ کے سوا اس کی کوئی غذا نہیں ہے۔ (الحاقہ 30 تا 36)

خداوند عالم کی ذات نے اپنے فرشتوں کو حکم سنا دیا ہے کہ تمام مجرموں کو زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے۔ مگر ابھی ایک کام باقی ہے، ان مجرموں کو جہنم کا لباس پہنایا جانا ہے۔ ان کے جسموں پر گندھک یا تارکول جیسا آتش گیر مادہ بطور لباس پہنا دیا جائے گا تاکہ جب جہنم میں جائیں تو آگ انہیں خوب اچھی طرح جلا سکے۔ ارشاد قدرت ہے:

الۡقَہَّارِ﴿۴۸﴾ وَ تَـرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ مُّقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ ﴿ۚ۴۹﴾ سَرَابِیۡلُہُمۡ مِّنۡ قَطِرَانٍ وَّ تَغۡشٰی وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ ﴿ۙ۵۰﴾ (سورہ ابراہیم، 49، 50)

اس دن آپ مجرموں کو ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھیں گے ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ہوگی۔

مجرموں کو آتش گیر لباس پہنا دیا گیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی آگ کو تیل کی جانب لپکتے ہوئے دیکھا ہے بالکل اسی انداز میں جہنم کی آگ ان کا استقبال کرے گی، ان کے سارے جسم کو گھیرے میں لے لے گی یہاں تک کہ چہرے اور آنکھوں کو بھی جھلسا دی گی جس سے ان کی شکلیں بھی بگڑ جائیں گی۔

تَلۡفَحُ وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ وَ ہُمۡ فِیۡہَا کٰلِحُوۡنَ﴿۱۰۴﴾ (سورہ مؤمنون، 104)

کَلَّا ؕ اِنَّہَا لَظٰی ﴿ۙ۱۵﴾ نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی ﴿ۚۖ۱۶﴾ (سورہ معارج، 15، 16)

ایسا ہرگز نہ ہو گا وہ (جہنم) تو بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو منہ اور سر کی کھال ادھیڑنے والی ہے۔

یوں تو اس حقیر سے انسان کے لیے دوزخ کی سختی، گرمی اور آگ کی حدت ہی قابل برداشت کہاں ہوں گی، مگر جونہی وہ جہنم میں داخل ہو گا تو اسے شدید بھوک اور پیاس بھی گھیر لیں گی۔

پہلے ان پر شدید بھوک مسلط کی جائے گی جس کی وجہ سے وہ زقوم کا زہریلا درخت کھانے پر مجبور ہوں گے جس سے ان کی آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اس کے بعد ان پر پیاس مسلط کی جائے گی جس کی وجہ سے وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (سورہ واقعہ 52 تا 56)

ایک مجرم جونہی ان مراحل سے گزرے گا تو چیخ اٹھے گا، اس کی برداشت جواب دے جائے گی اور وہ بے ساختہ التجا کرنے لگے گا کہ پروردگارا! میرا کوئی بھی عزیز و رشتہ دار، میرے والدین، میرے بھائی، بہنیں، جس کو تو چاہے میرے بدلے میں جہنم میں بھیج دے مگر مجھے اس عذاب سے نجات دے۔ قرآن کہتا ہے کہ:

مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو فدیہ میں دے اور اپنی زوجہ، اپنے بھائی، اپنے اس خاندان کو جو اس کو پناہ دیتا تھا اور روئے زمین پر بسنے والے سب کو (تاکہ) پھر اپنے آپ کو نجات دلائے۔ (سورہ معارج 11 تا 14)

جب کسی بھی طرف سے شنوائی نہ ہو گی تو تمام مجرم ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے اور کہیں گے ہم دنیا میں تو صرف چند ہی دن رہے ہوں گے، مگر ہائے افسوس! ہم نے ہمیشہ کا عذاب اپنے لیے خرید لیا۔ خدا فرماتا ہے:

یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا﴿۱۰۳﴾ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا﴿۱۰۴﴾ (سورہ طہٰ 103،104)

(اس وقت) وہ آپس میں دھیمے دھیمے کہیں گے (دنیا میں) تم صرف دس دن رہے ہوں گے۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کرتے ہیں جب کہ ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔

مجرم ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک بار پھر اپنی التجا لے کر خدا کی طرف متوجہ ہوں گے اور خداوند متعال سے عرض کریں گے کہ انہیں ایک موقع اور دیا جائے اور انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ نیک اعمال بجا لا کر اپنے آپ کو اس عذاب سے نجات دلا سکیں۔ مگر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی کیونکہ مہلت کا وقت گزر چکا ہو گا۔

وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ (سورہ فاطر، 37)

اور وہ جہنم میں چلا کر کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جگہ سے نکال، ہم نیک عمل کریں گے ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم (پہلے) کرتے رہے ہیں۔

آئیے میدان حشر کی دوسری جانب بھی نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ ادھر کیا ہو رہا ہے۔ فرشتے مؤمنین کے استقبال کے لیے جمع ہیں، انہیں جنت کی مبارک باد پیش کی جا رہی ہے، انہیں طرح طرح کے انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ حوریں اور غلمان ان کی خدمت کو صف بستہ موجود ہیں۔ جنت کی ہر نعمت ان کی خواہش کی منتظر ہے۔

اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ( فرشتے) انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دے جائیں گے اور جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو، تم بہت خوب رہے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (سورہ زمر، 73)

(نوٹ) اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ بچوں کو سورہ رحمٰن، سورہ دہر، سورہ الحاقہ اور سورہ المعارج سے جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب کی تفصیل سے آگاہ کریں۔