اسلامی تعلیمات

باب نمبر 1 - قرآن مجید کا تعارف

وَ اِذَا قُرِیٴَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۲۰۴﴾ (سورہ اعراف 204)

’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو پوری توجہ کے ساتھ اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو شاید تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

یہ اعزاز بھی صرف اسی کتاب کو حاصل ہے کہ اس کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾ اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ﴿ۙ۷۷﴾ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾ لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾ (سورہ واقعہ 76-79)

اور اگر تم سمجھو تو یہ یقیناً بہت بڑی قسم ہے کہ یہ قرآن بڑی تکریم والا ہے جو ایک محفوظ کتاب میں ہے جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

خداوند متعال نے اپنی آخری آسمانی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ میں کچھ ایسی خاص مٹھاس اور شیرینی رکھی ہے کہ مسلسل اس کو تلاوت کرنے کے باوجود بھی اس سے انسان تھکتا ہے نہ ہی اکتاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی عمر بھر بھی اس کتاب کو پڑھتا رہے تو اس کے اندر ذرہ برابر بھی اکتاہٹ و بیزاری کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔

قرآن مجید قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور سعادت کی کتاب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ’’ یاایھاالناس ‘‘ کے لفظ سے تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو’’ الناس ‘‘ سے بھی جامع ترین لفظ ’’ العالمین ‘‘ استعمال کیا ہے۔ قرآن مجید عالمین کے لیے ذکر ہے اور خداوندعالم نے اسے عالمین کے لیے نازل فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸۷﴾ (سورہ ص، 87)

یہ تو (قرآن خدا کی طرف سے) عالمین کے لیے صرف نصیحت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ مقدس کتاب حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے اپنے پیارے نبی سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر23 سال کے عرصے میں نازل کی۔

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب تیس پاروں پر مشتمل ہے اس میں 114 سورتیں 6236 آیات اور 32367 حروف ہیں کل 114 سورتوں میں سے چھیاسی 86 مکی (یعنی مکہ میں نازل ہونے والی سورتیں) ہیں۔ جبکہ 28 مدنی (یعنی مدینہ میں نازل ہونے والی سورتیں) ہیں۔

قرآن مجید کی تمام سورتوں میں سے یہ امتیاز صرف سورہ حمد کو حاصل ہے کہ نبی مرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اس کو دو بار نازل کیا گیا۔ ایک بار مکہ میں جبکہ دوسری بار مدینہ منورہ میں۔

قرآن مجید کی کل سات قرائتیں ہیں۔ اور سات ہی منزلیں بھی ہیں۔

قرآن مجید میں نقطے لگانے کا کام 86ھ میں حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد ابو اسود دوئلی نے انجام دیا۔

مجموعی طور پر قرآن مجید میں دو طرح کی آیات موجود ہیں۔ محکم اور متشابہ، محکم آیات کی تعداد متشابہ کے مقابلے میں زیادہ ہے اور انہیں ’’ ام الکتاب ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ (آل عمران 7)

وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔

کتاب مقدس کی آیات سمجھنے کے لیے متعدد تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ جن میں سے بہترین طریقہ ’’ تفسیر القرآن بالقرآن ‘‘ یعنی قرآنی آیات کے ذریعے قرآن کی تفسیر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس مقدس کتاب کے ایک سے زیادہ نام خود قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں۔ ( ھدیٰ، قرآن، عظیم، مبین، رحمت، شفاء، کتاب، ذکر، فرقان، حکیم، مجید، تبیان، عزیز، امام اور نور

قرآن مجید کا سب سے بڑا سورہ ’’ سورہ بقرہ ‘‘ ہے اور سب سے بڑی آیت ’’ سورہ بقرہ ‘‘ کی آیت نمبر 282 ہے۔ جبکہ سب سے چھوٹا سورہ ’’ سورہ کوثر ‘‘ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں طرح کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ اپنے نیک اور پسندیدہ لوگوں کے لیے جنت کی خوشخبری سنائی ہے جبکہ برے کردار والوں کے لیے جہنم کی بدترین اور خوفناک سزا سنائی ہے۔