Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، گناہوں کا اقرار کرنے والا، گناہوں سے توبہ کرنے والے کی مانند ہے۔ مستدرک الوسائل حدیث 13671
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امامت، ولایت کے معنی

آية اللہ شہید مرتضیٰ مطہری

اس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں پس یہ ہر دوری و لیتی قائم است یعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیں دل نگہ دار پدای بی حاصلان در حضور حضرت صاحبدلان یہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلی شیخ واقف گشت از اندیشہ اش شیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اش ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے : ولولا الحجۃ لساخت الارض باھلھا مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔ ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔ ۱۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔ ۲۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔ ۳۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔ پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔