Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، بخیل ٹال مٹول اور حیلے بہانوں سے کام لے کر اپنے مال کو روکے رکھتا ہے۔ غررالحکم حدیث6536

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

مدینہ میں قیام نہ کر نا

سوال ۲: امام حسین علیہ السلام نے مدینہ میں ہی قیام کا آغاز کیوں نہیں کیا؟
جواب: اس سوال کے جواب کے لئے اس دور کے زمان اور مکان کے شرائط و حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔
زمان کے لحاظ سے : امامؑ جب مدینہ میں تشریف فرما تھے تو اس وقت تک مرگ معاویہ کی خبرعام نہیں ہوئی تھی، اس کے علاوہ یہ کہ ابھی لوگوں کی اکثریت معاویہ اور یزید کی حکومت کے درمیان فرق کو اچھی طرح نہیں جانتی تھی، اگرچہ بعض خواص جیسے امام حسینؑ ، عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر اور عبدالرحمن ابن ابی بکر کی نظر وں میں یزید بدکردار، شراب خور،سگ اور بندر باز کے طور پر مشہور تھا ـ۔ (۱)
لیکن معاویہ اور اموی گماشتوں کے پروپیگنڈے اور معاویہ کی طمع بازیوں اور دھمکیوں کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت معاویہ کی زند گی ہی میں یزید کی بیعت کر چکی تھی۔(۲) اور مکانی لحاظ سے بھی مدینہ قیام کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی کیونکہ:
پہلا یہ کہ: اگر چہ مدینہ والوں کی اکثریت خصوصاً انصا ر خاندان اہل بیت سے محبت کرتے تھے لیکن ان کی محبت اس حد تک نہیں تھی کہ وہ ان کے لئے جان بلکہ جا ن سے کم تر کوئی چیز قربان کریں ، جیسا کہ سقیفہ جیسے وا قعات سے ان کی اس سستی و کمزوری کا بخو بی اندازہ ہو تا ہے یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب حضرت علیؑ نے بیعت توڑنے والوں ( جمل والوں ) کے مقابلے کے لئے اہل مد ینہ سے مدد مانگی تو اکثر نے مثبت جواب نہیں دیا تھا اور حضر ت علیؑ مجبوراً صرف چار سو(۳) یا سات سو(۴)، افراد کے لشکر کے ساتھ مخالفین کے ہزاروں کے لشکر کے مقابلے کے لئے نکلے۔
دوسرا یہ کہ: حضو ر اکرمؐ کے بعد مدینہ حکام وقت کی سیاست کی پیروی کرتا تھا اسی وجہ سے سیاست شیخین کی پیروی کی خاطر سنت پیغمبرؐ کے مقابل ان کی سنت کی حفاظت پر زیادہ مصّر نظر آتا تھا ، جیسا کہ اس گروہ کے نما ئندے عبدالرحمن بن عو ف نے حضر ت علی علیہ السلام کو حکومت حوالے کرنے کی شرط سیر ت شیخین کی پیروی کو قرار دیا لیکن حضر ت علیؑ نے اس شرط کو قبو ل نہ کیا اور حضرت علیؑ جب خلافت پر فا ئز ہو ئے(۵) تو اس میں بھی اصلی کردار مدینہ والوں کا نہیں تھا بلکہ دوسرے شہروں خصوصاً کوفہ کے مہاجرین کا حضرت علیؑ کی خلافت پر زیا دہ اصرار تھا۔
تیسرا یہ کہ: اسی دور میں قریش کے مختلف قبائل خصوصاً بنی امیہ اورا ن کے حما یتی مدینہ میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے تھے اور واضح ہے کہ امام حسینؑ کے قیا م کے مقابل یہ بھی تیزی سے اقدام کرتے۔
چوتھا یہ کہ : اس دور میں مدینہ کی آبا دی اتنی زیا دہ نہیں تھی کہ اس کی بنیا د پر کوئی بڑا اورتاریخی قیام شروع کیا جا سکے اور دوسرے بڑے شہر وں جیسے کوفہ ، بصرہ اور شام کے مقابل مدینہ کی آبادی بہت کم تھی۔
پانچواں یہ کہ : سابقہ تاریخی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ مرکزی اور طاقتور حکومتوں کے مقابل قیام کے لئے مدینہ منا سب جگہ نہیں تھی ، جو قیام بھی اس شہر میں شروع ہوتا اس کی شکست پہلے سے ہی عیاں ہوتی تھی ،جیسا کہ سن۶۳ ہجری میں مدینہ والوں نے حکومت یزید کے خلاف قیام کیا ( واقعہ حرّہ) جسے بڑی آسانی کے ساتھ سرکوب کرلیا گیا۔ (۶)اسی طرح علویوں کے قیام جیسے محمد بن عبد اللہ المعروف نفس زکیہ ۔ (۷)(سن ۱۴۵ہجری) اور حسین بن علیؑ المعروف شہید فخ کا قیا م (۸)(سن ۱۵۹ہجری) اہل مدینہ نے معمولی سی مزاحمت کی اور آسانی سے شکست کھا گئے۔
چھٹا یہ کہ : اموی حکومت کے دوران اہل مدینہ یہ بات ثا بت کر چکے تھے کہ وہ اموی حکومت کے مقابل اہل بیت کا دفاع کر نے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ معاویہ کی طرف سالہا سال تک اس شہر کے منبروں پر حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کا سلسلہ چلتا رہا اور اموی حکمران آپ کے بارے بدگوئی کرتے رہے با وجود اس کے کہ مدینہ والے جا نتے تھے یہ سب جھوٹ ہے لیکن کبھی انہوں نے سختی سے اس سیاست کو رد نہ کیا ، اس سیاست کا زیا دہ تر مقا بلہ خو د اہل بیت کے افراد خصو صاً اما م حسینؑ کرتے رہے، یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے بھی مدینہ والوں میں سے کوئی شخص کھڑا نہ ہوتا۔ (۹)
سا تواں یہ کہ : اموی حکمران (ولید بن عتبہ) کا شہر پر مکمل کنٹرول تھا اور ایک قیا م کے ذریعے ممکن نہیں تھا کہ حالا ت اس کے کنٹر و ل سے باہر ہو جائیں اور مخالفین شہر پر مسلط ہو جائیں ۔
(۱) تاریخ یعقوبی، ج۲ ، ص ۲۲۸
(۲) الامامۃ والسیا سۃ، ج۱ ، ص ۱۶۱۔ ۱۶۴
(۳) تاریخ یعقوبی،ج۲ ، ص۱۸۱
(۴) مروج الذھب، ج۲ ، ص ۳۹۵
(۵) تاریخ یعقو بی، ج۲ ، ص ۱۶۲
(۶) الکامل فی التا ریخ ،ج۲،ص ۵۹۳
(۷) الکامل فی التاریخ، ج۳، ص ۵۶۳۔۵۷۹
(۸)تا ریخ یعقو بی ،ج۲ ، ص۴۰۴، ۴۰۵
(۹) بحار الانوار ، ج۴۴، ص۲۱۱