Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، اس بات کا خیال رکھو کہ جو حصہ خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے اور جو قرب اس نے تمہیں عطا کیا ہے اُسے کہیں دنیا کے حقیر مال و متاع کے بدلے نہ بیچ ڈالو۔ غررالحکم حدیث2218

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

یمن کو منتخب نہ کرنا

سوال ۶: امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے لئے یمن کا انتخاب کیوں نہ فرمایا جب کہ وہاں اہل تشیع کی تعداد بھی کافی تھی؟
جواب: ابن عباس نے امام حسین علیہ السلام کو مشورہ دیا کہ آپ یمن چلے جائیں وہاں سے آپ اپنے داعی و مبلغ دوسرے علاقوں کی طرف بھیجیں اور وہاں رہ کر اپنی تحریک کی رہنمائی کرتے رہیں تا کہ آپ یزید کا مقابلہ کر سکیں ۔ (۱)
اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیوں امامؑ نے اس مشورہ کو بالکل ہی درخوراعتناء نہ سمجھا؟
اس سوال کے جواب میں درج ذیل امور پر توجہ ضروری ہے:
۱)رسول اکرمؑ کے زمانے میں جب حضرت علیؑ یمن میں موجود تھے تو اگرچہ یمن والے حضرت علیؑ سے خوش تھے اورآپ کی طرف ان کے دل میلان رکھتے تھے لیکن کوفہ کے مقابلے میں قطعاً یمن کو اس زمانے میں شیعیت کا مرکز شمار نہیں کیا جا سکتا۔
۲)اہل یمن کا ماضی بتلاتا ہے کہ بحرانی حالات میں ان کے اوپر دارو مدار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے دوران معاویہ کی فوجی کاروائیوں کے سامنے یہی یمنی ہی تھے(۲) جنہوں نے کو تاہی کر تے ہو ئے اپنے گورنر عبدا للہ بن عباس کو تنہا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ کوفہ کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گیا اور معاویہ کے بے رحم دستوں نے بسربن ارطاۃ کی سرکردگی میں شہر پر آسا نی سے قبضہ کر لیا اور بہت سے لو گ کہ جن میں عبداللہ بن عبا س کے دو چھوٹے بچے بھی موجو د تھے قتل کر دیے گئے ۔(۳)(جب کہ معاویہ کے یہ دستے زیادہ مضبوط بھی نہیں تھے)
۳)اس دور میں یمن اسلامی مملکت کے اہم اور مرکزی شہروں میں شمار نہیں ہوتا تھا اور دوسرے اہم شہروں جیسے کوفہ ، بصرہ اور مدائن وغیرہ کے قر یب بھی نہیں تھا کہ جہاں سے حضرت کو حمایتی ملنے کی توقع تھی۔
۴)حضو ر اکرمؐ کے وصا ل کے ساتھ ہی یمن کے قبائل کے ارتداد نے اس ملک کے بارے میں ایک منفی تصور ذہنوں میں چھوڑ رکھا تھا اور یہ احتمال موجود تھا کہ اگر امامؑ اپنے قیام کے لئے یمن کو مرکز بناتے ہیں تو لوگ حکومت کے خلاف اس قیام کو بھی ماضی کی انہی مثالوں سے مقایسہ کریں گے اور اسے بھی ویسا ہی سمجھیں گے، خصوصاً اموی حکومتی مشینری اس حوالے سے خوب پروپیگنڈا بھی کر سکتی تھی، تاکہ حضرت کے قیام کو بدنام کر سکے۔
۵)یمن دوسرے اسلامی شہروں سے بالکل الگ تھلگ اورہٹ کر تھا جس کی وجہ سے اموی حکومت کے لئے اس قیام کو سرکوب کرنا بالکل آسان ہو تا۔
۶)اس زمانے میں امام حسینؑ کے لئے اہل یمن کی طرف سے کوئی باقاعدہ دعوت نہیں آئی تھی لہٰذا حضرت کا دفاع کرنے کی کوئی ذمہ داری وہ اپنے اندر محسوس نہ کرتے جب کہ کوفہ والوں میں امام حسین علیہ السلام کو کوفہ کی دعو ت دینے کے لئے جو جذبات و خواہشا ت موجود تھیں ان کا ایک فیصد بھی یمن والوں میں نہیں تھا جیسے اہل بیت کا عقیدتی دفاع ، شام کے مقابل کوفہ کی مرکزیت کا دوبارہ احیاء، کوفہ میں عدالت علوی والی حکومت کا احیاء اور بنی امیہ کے ظلم و ستم سے رہائی وغیرہ۔
(۱) الکامل فی التا ریخ ، ج۱،ص۶۵۱
(۲) حوالہ سابق، ج۲، ص ۴۳۱
(۳) وقعۃ الطف، ص ۹۲