Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، بلاغت کا تقاضا ہے کہ کسی چیز کے جواب دینے میں دیر نہ کی جائے اور جواب میں غلطی نہ ہو۔ غررالحکم حدیث 2150

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

اہلِ کوفہ کی خیانت

سوال ۷: جن کوفیوں نے اس حد تک شوق و جذبے سے امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی، انہوں نے حضرتؑ کی مدد کیوں نہ کی بلکہ آپ کے خلاف جنگ میں شریک بھی ہوئے؟
جواب: اس سوال کے جواب کے لئے دو اور سوالوں کے تفصیلی جوابا ت دینا ضروری ہیں ۔
پہلا: کوفیوں نے اتنی وسیع سطح پر کیوں امام حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی؟
دوسرا: عبداللہ بن زیاد نے کوفہ کے قیام کو سرکوب کرنے کے لئے کن چالوں سے استفادہ کیا؟
سوال اول کا جوا ب: اس نکتہ پر توجہ رہنی چاہیے کہ کوفیوں نے اس وقت امام حسینؑ سے خط وکتابت شروع کی جب آپ مکہ میں اقامت گزین تھے (نامہ نگاری کی ابتدا ء دس ماہ رمضان ۶۰ ہجری کو ہوئی)(۱) اور اتنے کثرت سے خطو ط بھیجے گئے کہ اسے تحریک خطوط کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور چند ہی دنوں میں خطوط کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی کہ ایک دن میں تقریبا چھ چھ سو خطوط آنے لگے، یہاں تک امامؑ تک پہنچنے والے خطوط کی تعداد بارہ ہزار تک پہنچ گئی۔(۲)جو خطو ط ہم تک پہنچے ہیں ان کے نیچے کئے گئے دستخط اور ان میں مذکور نام اور دوسرے قرائن کو دیکھتے ہو ئے یہ اندا زہ لگا یا جا سکتا ہے کہ خط بھیجنے والے کسی خاص طبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر طبقے کے مختلف نظ یا ت رکھنے والے لوگ تھے کہ جن میں خاص شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی، مسیب بن نخبہ خزاری، رفاعہ بن شداد اور حبیب بن مظاہر کے نام بھی دیکھے جا سکتے ہیں (۳)اور سا تھ ساتھ کوفہ میں رہائش پذیر اموی ٹولے کے افراد جیسے شبث بن ربعی (کہ جس نے امام حسینؑ کے قتل پر شکرانے کے طور پر کوفہ میں مسجد بنائی) ۔ (۴)حجار بن ابجر (عاشورہ والے دن یہ لشکر یزید میں تھا جب امام حسینؑ نے اسے اس کاخط دکھایا تواس نے تحریر پہچاننے سے انکار کر دیا )۔(۵)
یزید بن حارث بن یزید ( اس نے بھی امام کے نام اپنے خط کا انکار کیا) ۔(۶)
عزرۃ بن قیس ( یہ لشکر عمر بن سعد میں گھڑ سوا روں کے دستے کا سالار تھا )۔(۷)
اور عمر و بن حجاج زبیدی (یہ نہر فرات پر پہرہ دینے والے دستے کا سالار تھا جو امام حسینؑ کے خیموں تک پانی پہنچنے سے ما نع تھا) ـ(۸)جیسے افراد کے نام بھی دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ زیادہ جو شیلے خطوط انہی کے تھے اور انہوں نے امامؑ کو مسلح لشکر کی آمادگی کے عنوانات سے خطوط لکھے ۔ (۹)ہم سمجھتے ہیں کہ اکثر خط لکھنے والے جن کے نام تاریخ میں نہیں آئے وہ عام لوگ تھے جو اپنے مادی فوائد کے چکروں میں تھے جس طرف انہیں فائدہ نظر آتا وہ اس طرف چلے جاتے، یہ افراد اگرچہ بحرانوں میں رہبریت تو نہیں کر سکتے لیکن یہ وہ عظیم موج ہیں کہ ایک ماہر موج سوار اپنی سمجھدا ری کے ساتھ ان سے خوب فائدہ اٹھا سکتا ہے اوران پر سوار ہو کر اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے ۔
زیادہ قوی احتما ل یہی ہے کہ حضر ت مسلم بن عقیل کی بیعت کرنے والے اٹھارہ ہزار افراد بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔جب انہوں نے اپنی دنیا اور منا فع کو خطرے میں دیکھا تو فوراً اپنے آپ کو جنا ب مسلم سے الگ کر لیا اور انہیں کوفہ کی گلیوں میں یکہ و تنہا چھو ڑ دیا ۔ فطری سی بات ہے کہ اما م حسین علیہ السلام کی مختصر سی فوج کے مقابل کربلا میں یہی لوگ نظر آئیں گے ۔ کیونکہ ابن زیا دہ کی طر ف سے لالچ اور دھمکیاں ان کے دنیا و ی منافع کے لحا ظ سے تھیں اور ان کا اما م کی مختصر سی فو ج کو دیکھتے ہو ئے ابن زیا د کی کامیابی کے بارے اطمینا ن بھی ان کے اند ر ضروری جذبے کو بیدار کر رہا تھا اگرچہ ان کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت نواسہ رسول ؐ اور پسرحضرت علیؑ ہو نے کے ناطے موجودتھی یہ وہی لو گ تھے جن کے با رے مجمع بن عبداللہ عا ئزی نے اما م حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا
…واما سا ئز النا س بعد فا ن افئد تھم تھوی
الیک و سیو فھم غدا ء مشھورۃ علیک… (۱۰)
’’لوگوں کی اکثریت کے دل تو آپ کی طرف مائل ہیں لیکن کل ان کی تلو اریں آپ کے خلاف نیام سے با ہر نکلیں گی ‘‘
انہی میں سے بعض افرا د عاشو ر ہ کے دن ایک طرف کھڑ ے ہو کر اما م حسین علیہ السلام کو قتل ہو تا دیکھ کر آنسو بہا تے ہو ئے کہہ رہے تھے’’ خدا یا حسینؑ کی مدد فرما‘‘(۱۱)
اس مقدمہ کے بعداب ہم ا س نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ چونکہ خط لکھنے والے ہر طرح کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے لہٰذ ا ان میں کسی خاص جذبے کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی ۔بلکہ ان کے مختلف گروہوں کو دیکھتے ہو ئے ذیل کی متعدد وجوہ ذکر کی جا سکتی ہیں :
۱) حبیب ابن مظا ہر اور مسلم بن عو سجہ جیسے خالص و مخلص شیعہ اس لحا ظ سے کہ حکومت کو اہل بیت علیہ السلام کا حق اور امویوں کی ظلم و ستم سے پُر حکومت کو ناحق و ناجا ئز سمجھتے تھے انہوں نے اس لئے امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھے تا کہ حکومت غاصبوں سے لے کر اس کے اصلی حقداروں کے حوالے کی جاسکے البتہ ایسے لوگ بہت کم تھے۔
۲) کوفہ والوں کی اکثریت خصوصاً وہ ادھیڑ عمر لوگ جنہوں نے کوفہ میں حضرت علی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کو بھی دیکھا تھا اور وہ ان بیس سالوں میں امو ی حکومت کے ظلم و جور کو بھی دیکھ چکے تھے ، انہوں نے اس ظلم سے رہائی کی خاطر اولا د علی علیہ السلام سے مدد و نصرت ما نگی کہ شاید وہ انہیں اموی حکومت کے پنجہ ظلم سے چھٹکارا دلا دیں ۔
۳) بعض نے کوفہ کی مر کزیت کو زند ہ کر نے کے لئے کہ جس پرہمیشہ شام والوں سے ان کامقابلہ رہا اور ان بیس سالوں میں جسے وہ ہاتھ سے دے بیٹھے تھے ۔وہ ایک رہبر کی تلاش میں تھے جو اس مقصد کو پو را کر سکے ۔ ان کی نظر میں اس دور میں ایک مؤ ثر اور مناسب شخصیت جو کوفہ والوں کی رہبر یت کی قدرت رکھتی ہو اور اموی حکومت کو بھی ناجائز حکومت سمجھتی ہو صرف اما م حسین علیہ السلام کی شخصیت تھی اس وجہ سے انہوں نے اما م حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعو ت دی ۔
۴) قبیلوں کے بزرگ جیسے شبث بن ربعی اورحجا ر بن ابجر جیسے افراد ایک طرف سے تو انہیں صرف اپنی قدر ت و ریا ست کی فکر تھی اور دوسری طرف سے علو ی خا ندان سے بھی ان کی دوستی نہیں تھی ، جب انہوں نے وسیع سطح پر لوگوں کی تو جہ اما م حسین علیہ السلام کی طرف دیکھی تو انہوں نے یہ سمجھا کہ عنقریب کوفہ میں اما م حسین علیہ السلام کی حکومت تشکیل پا جا ئے گی اور وہ اس قا فلے سے پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ آپ علیہ السلام کی حکومت کے دورا ن بھی ان کا اثر و نفوذ باقی رہے لہٰذا وہ بھی خطو ط لکھنے والے افراد میں شامل ہو گئے۔
۵) عام لو گ جنہوں نے مقتد ر افراد کے جو ش و جذ بے کو دیکھا تو ان کے دلوں میں بھی خط لکھنے کے جذبا ت پیدا ہو گئے اورا نہوں نے بھی ان شعلوں کو مزید ہو ادی ۔
دوسرے سوال کا جوا ب: ابن زیا دکے کو فہ وارد ہو تے ہی قبا ئل کے سر کر دہ افرا د اور اموی طرفداروں نے سکھ کا سانس لیا اور تیز ی سے اس کے اطرا ف جمع ہو نا شر وع ہو گئے اور اسے کوفہ کے اندرو نی حالا ت سے مکمل آگاہ کر نے لگے، ابن زیا د کو کوفہ میں ورود کے پہلے دن ہی سے کوفیوں کے اندر اما م حسین علیہ السلام کی محبو بیت اور قیام کی وسعت کا اندا زہ ہو گیا کیونکہ وہ سیا ہ عمامہ کے ساتھ چہر ے کوچھپا کر کوفہ میں داخل ہوا تھا اور لو گ چو نکہ اما م حسینؑؑکے ورو د کے منتظرتھے لہٰذا لو گ اسے اما م حسینؑکے ساتھ اشتبا ہ کر رہے تھے جس کی وجہ سے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اس کا استقبا ل کر رہے تھے ۔ (۱۲)اس وجہ سے اسے بھی خطرے کی گہرا ئی کا احسا س ہو گیا ، لہٰذا اس نے بصرہ میں اپنے سیا سی و انتظا می تجربے سے فا ئدہ اٹھا تے ہوئے اورا پنے بہی خواہوں کی مدد سے اس تحریک و قیام کی سرکوبی کے لئے بڑی تیزی سے مؤثر اقدا ما ت کئے کہ جن میں اہم اقدامات نفسیاتی ، اجتما عی اور اقتصا دی ذکر کئے جا سکتے ہیں

۱)نفسیا تی اقدا ما ت

ابن زیا د نے یہ سیا ست جس کا زیا دہ تر دار و مدا ر دھمکی اور لا لچ پر تھا اپنے کوفہ میں ورود کے ساتھ ہی شرو ع کر دی تھی ،ا س نے مسجدکوفہ میں اپنی پہلی تقریر ہی میں کہا کہ میں فرما نبر داروں کے لئے مہر با ن باپ کی ما نند ہو ں گا اور نافر ما نوں کے لئے میری تلوار اور کوڑا موجود ہیـ ۔(۱۳)
ابن زیا د کا لو گوں کو سپاہ شام کے کوفہ آنے کی خبر دینا بھی ایک حر بہ تھا جو اس نے اختیا ر کیا اور اس حربے نے شو رش کو دبا نے خصوصاً اس کے بعد جب لوگوں نے مسلم کے ہمر اہ دار الا مارہ کامحاصر ہ کر رکھا تھا بڑ ا مو ٔ ثر کر دا ر اد ا کیا ۔ (۱۴)
جب اما م حسن علیہ السلام کی معا ویہ سے صلح ہو گئی ( کوفیوں کا افواج شام سے آخری بار آمنا سامنا ہوا) اس وقت سے کوفیوں کے ذہنوں میں شامی منظم افواج کا رعب اور ہیبت بیٹھ چکی تھی اوروہ اپنے آپ کو ان کے ساتھ مقابلہ کے بالکل قابل نہیں سمجھتے تھے ، ابن زیا د کا یہ پروپیگنڈا عورتوں میں بھی سرایت کرگیا جس کی وجہ سے عو رتیں آ کر مسلم کے ساتھ شریک اپنے بھائی ، بیٹوں یا شوہر کو لے جاتیں ۔ (۱۵)اسی پروپیگنڈا کی وجہ سے دن کے وقت مسلم نے چا ر ہزار افراد کے ساتھ دارالامارہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور عبیداللہ کا تختہ الٹنے والا تھا لیکن شام کے وقت مسلم کوفہ کی گلیوں میں یکہ و تنہا تھے۔(۱۶)

۲)اجتماعی چالیں

چونکہ ابھی تک قبائلی نظام قائم تھا، لہٰذا قبیلوں کے سر دار اجتما عی اور سیاسی معاملات میں بہت اہم اور مؤثر قوت شمار ہوتے تھے ،جیسا کہ بیان ہو چکا کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد جیسے شبث بن ربعی ، عمروبن حجاج اور حجار بن ابجر امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنے والوں میں شامل تھے اور طبعی سی بات ہے کہ جب مسلم کوفہ تشریف لا ئے تو یہ ان کا سا تھ دینے والوں میں بھی شامل تھے۔ لیکن یہ لو گ زیا دہ تر اپنے مفاد اور مقام کی حفاظت کے پیچھے تھے لہٰذا جب عبیداللہ بن زیاد کوفہ آگیا اورا نہیں اس کی دھمکیوں کا سامنا کر نا پڑ ا تو یہ مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ کر ابن زیاد کے لشکر میں شامل ہو گئے چونکہ یہی ان کی دنیاوی منفعت کا تقاضا تھا۔ ابن زیاد خوب سمجھتا تھا کہ انہیں کیسے اپنے ارد گرد جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس نے دھمکیوں اور رشوت و لالچ کی چالیں چلتے ہو ئے قبائل کے سرداروں اور سر کردہ افراد کو اپنے سا تھ ملا لیا، جیسا کہ مجمع بن عبد اللہ عا ئزی جو کہ کوفہ کے حالا ت سے مکمل واقف تھا اوروہ ابھی ابھی کوفہ سے آیا تھا جب اس سے امامؑ نے کوفہ کے حالا ت پوچھے تو اس نے جواب میں کہا ـ:
واما م اشرف النا س فقد اعظمت رشو تھم و
ملئت غرائرھم یستما ل ودھم و یستخلفی
بہ تصیحتھم فھم الب واحد علیک …(۱۷)
’’کوفہ کے سر کردہ افراد کو خوب رشوت دی گئی ہے ان کے مخازن ( گند م و جو سے ) بھر دئیے گئے ہیں ، ان کی محبت حاصل کر لی گئی ہے اور ان کی خیر خواہی جذب کر لی گئی ہے ۔ اب وہ سب آپ کے خلاف متحد ہوچکے ہیں ‘‘دوسری اجتماعی مؤثر قوت جس سے ابن زیاد نے خوب فا ئدہ اٹھا یا ، ’’عرفا‘‘تھے، عرفا ، عریف کی جمع ہے ، اور عر یف اس شخص کو کہا جاتا تھا کہ جن کے ذمے کچھ افراد کی ذمہ دا ری ہو تی تھی ۔ کہ جن کا بیت المال سے سال کا ایک لاکھ درھم خرچہ ملتا تھا۔ (۱۸)چو نکہ وصول کی جانے والے رقم افراد کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی لہٰذا ان کے ماتحت افراد کی تعداد بھی بیس سے لے کر سو تک ہو سکتی تھی۔(۱۹)
جب قبا ئل نے کوفہ میں شہری زند گی شروع کی تو یہ کام ایک حکومتی منصب قرار پایا لہٰذا جیسے یہ کوفہ کے میسرو والی کے سامنے جوابد ہ تھے۔ (۲۰)اسی طرح ان کا تعین کرنا اور معزول کرنا بھی اسی کے اختیارات میں سے تھا نہ کہ قبیلہ کے سردار کے پا س ،یہ منصب لوگوں اور حکومتوں کے درمیان رابطہ کا کام کر تا تھا اور چو نکہ سردار قبیلہ کی نسبت ان کے ماتحت افراد کی تعداد خاصی کم ہوتی تھی لہٰذا یہ بڑی آسانی کے ساتھ ان پر کنٹرول رکھ سکتے تھے۔
’’عریف‘‘ کا اصلی کام یہ تھا کہ رجسٹر بنا کر اس میں اپنے ماتحت افراد کے نام اوران کے پورے کنبے کے ناموں کا اندراج کرے۔ نئے متولد ہونے والے بچے کا نام فوری طورپر اس رجسٹر میں لکھ لیا جا تا اور وفات پا جانے والے اشخا ص کا نام فوراً اس رجسٹر سے کاٹ دیا جا تا۔ لہٰذا انہیں اپنے ما تحت افراد کے بارے میں مکمل معلومات رہتی تھیں اور بحرانی حالات میں عرفاء کی ذمہ داری دو گنا بڑھ جاتی تھی کیونکہ اپنے ماتحت افراد میں نظم کی بر قراری کہ جسے عرافت کہا جا تا تھا۔ انہی کی ذمہ داری ہوتی تھی اور واضح سی بات ہے جہاں حکومت ان سے درخواست کرتی تو شورش اور فسادی افراد کے با رے میں حکومت کو یہی لوگ اطلاعات بھی فراہم کر تے تھے۔ (۲۱)
ابن زیاد نے کوفہ وارد ہوتے ہی بڑی زیرکی کے ساتھ اس اجتماعی قوت سے فائدہ اٹھانے کی ٹھا ن لی تھی اور زیادہ احتما ل یہی ہے کہ یہ چیز اس نے اپنے باپ زیاد سے اس کی کوفہ پر امارت کے دور میں سیکھی تھی۔ ابن زیاد مسجد کوفہ میں اپنی پہلی تقریر کرنے کے بعد قصر امارت میں آیا اور سب عر فاء کو بلا کر انہیں یوں کہا ـ:
اکتبواالہ الغربا ء ومن فیکم من طلبۃ امیر المو منین ومن فیکم من الحر وریۃ واھل الریب الذین رأبھم الخلا ف والشقاق ، فمن کتبھم لنا فبر ی ومن لم یکبت لنا احد ا فیضمن لنا ما فی عرافتہ الا یخالفنا منھم مخالف ولا یبغی علینا منھم با غ فمن لم یفعل بر ئت منہ الذمۃ وحلا ل لنا ما لہ وسفک ومہ وایما عریف وجدنی عرا فتہ من بغیۃ امیرالمومنین احدلم ید فعہ الینا صلب علی باب دارہ والقیت تلک العرافۃ من العطا۔
’’تم سب کی ڈیوٹی ہے کہ اس شہر میں مسافروں اور یزید کے مخالفوں کے نام (جو تمہا ری عرافت میں آتے ہیں ) مجھے لکھ دو، اسی طرح حروریہ (خوارج) اور مشکوک افراد جو اختلاف و تفرقہ ڈالتے ہیں کے بارے میں مجھے رپورٹ دو ، جو اس حکم پرعمل کرے وہ بری ہے لیکن جس نے یہ سب نہ لکھا تو اسے اپنی عرافت کی ضما نت اٹھانا ہو گی، اس کی عرافت میں اگر کسی مخالف یا باغی نے ہما رے خلاف کوئی کام کیا تو وہ ہماری پناہ سے خارج ہے اور اس کا مال و خون ہم پر مباح ہے، جس عریف کی عرافت میں یزید کے خلاف کوئی شورش گرپایا گیا تو اس عریف کو اس کے گھرکے دروازے پر پھانسی پر لٹکایا جائے گا اور اس کی ساری عرافت کو عطاء سے محروم کر دیا جا ئے گا‘‘
جہاں تک ہمیں نظر آتا ہے ابن زیا د کا اسی اجتما عی چال سے استفا دہ وہ اہم عامل تھا جو کوفہ میں مسلم بن عقیل کی تحر یک کو سر کوب کر نے کا با عث بنا ،کیونکہ عرفا ء ابن زیاد کی دھمکیوں سے ڈرگئے جس کی وجہ سے انہوں نے بڑی تیزی سے اس کے احکام پر عمل کیا اور اپنی عرافت کی حدود میں حالات کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا۔

۳)اقتصا دی چالیں

اس دور میں لوگوں کا اہم اقتصا دی و ما لی ذریعہ حکومت سے عطاء کا دریافت کرنا تھا،فتوحات کے دور میں لوگوں کو یہ عطا اس شر ط پر دی جا تی کہ وہ اس کے بدلے ایرانیوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیں گے۔ بعد میں جب جنگوں کا سلسلہ ختم ہو گیا اور لوگ شہر نشین ہو گئے تب بھی یہ عطاء جاری رہی ،یہی وجہ ہے کہ عر ب کھیتی باڑی ، صنعت گری اور تجارت وغیر ہ جیسے کاموں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے اور زیا دہ ترموالی( وہ غیر عرب جنہوں نے عربوں کے ساتھ معاہدے کر رکھے تھے ) یہ کام انجام دیتے تھے نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ عرب صنعت و حر فت کے کاموں کواپنے شایان شان ہی نہیں سمجھتے تھے۔ (۲۲)
’’عطاء‘‘وہ نقدی تھی جو حکومت کی طر ف سے لوگوں کو یکمشت یا قسطوں کی صورت میں اداکی جا تی تھی ، نیز اجنا س کی وہ مقدار ( جیسے کھجو ریں ، گندم وجو وغیر ہ) جو حکومت کی طرف سے ہر ماہ لوگوں کو دی جا تی تھی وہ بھی عطا ء کہلاتی تھی۔
اب یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس اقتصادی نظام کی وجہ سے لوگ (عرب ) حکومت کے ساتھ انتہا ئی وابستہ ہو تے تھے اور استبدا دی حکومت لوگوں کی اس کمزوری سے مکمل آگاہ تھی لہٰذا اس سے وہ خوب فائدہ اٹھا تی تھی۔
ابن زیا د نے عرفاء کو دھمکاتے وقت اس حربے کو استعما ل کیا اور کہا کہ اگر کسی کی عرافت میں ہما را مخالف پا یا گیا تو اس کے سنگین نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی عرافت کے تما م افرا د کی عطا ء رو ک لی جا ئے گی ، اس دھمکی کی وجہ سے نہ صر ف عریف مخالفت روکنے کی کو شش کر تا بلکہ اس کی عر افت والے دوسرے افرا د کی بھی اپنے مالی نقصان سے بچنے کے لئے یہی کوشش ہوتی کہ ان کی عر افت کے اندر کوئی شخص حکومت کی مخالفت نہ کر نے پائے ۔
اسی طرح جب جنا ب مسلم اور ان کے ساتھیوں نے دار الا مارۃ کا محاصرہ کیا تو ابن زیاد کی سب سے بڑی چال لوگوں کو مسلم کی اطرا ف سے دورکر نے کے لئے یہی تھی کہ اگر ساتھ چھو ڑ جائیں تو ان کی عطاء بڑ ھا دی جا ئے گی اور اگر مسلم کا ساتھ نہ چھو ڑیں تو ان کی عطا ء رو ک لی جا ئے گی ۔ (۲۳)
ابن زیا د نے اس اقتصا دی حر بے سے فائد ہ اٹھا یا اور عطا ء کے بڑھا نے کا وعد ہ دے کر اہل کوفہ سے ایک عظیم لشکر ( جو کہ تیس ہزار تک ذکر ہو ا ہے) (۲۴)اما م حسینؑ کے مقابلے میں جنگ میں اتارا ، اس لشکر کے اکثر افرد وہ تھے جن کے دل اما م کے ساتھ تھے۔(۲۵)
امام حسینؑ کے ذہن میں بھی یہ با ت تھی کہ یہ حربہ کس حد تک لوگوں پر کار گرہے، لہٰذاآپ نے عاشورہ کے دن اپنی ایک تقریر کے دورا ن اسی حربے کو اہل کوفہ کی نافرمانی کی ایک بڑ ی وجہ قرار دیا ۔ آپ فر ما تے ہیں :
کلکم عاص لامری مستمع لقو لی ، قد انخزلت
عطیاتکم من الحرا م وملئت بطو نکم من الحرام فطبع علی قلوبکم ۔(۲۶)
’’تم سب میری نافرمانی کرنے والے ہو اور میری بات سننے والے نہیں ،کیونکہ تمہا ری عطاء مال حرام سے فراہم ہو ئی ہے اور تمہارے شکم حرام سے بھرے ہو ئے ہیں ، جس کی وجہ سے تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے‘‘
(۱) بحا ر الانوار، ج۴۴، ص ۳۴۴
(۲) وقعۃ الطف، ص ۹۰۔۹۱
(۳) تاریخ طبر ی ،ج۶ ، ص ۲۲
(۴۔۵) حوالہ سابق، ج۵، ص ۴۲۵
(۶) حوالہ سابق ،ص۴۱۲
(۷) وقعۃ الطف، ص ۹۳۔ ۹۵
(۸) وقعۃ الطف، ص ۹۵
(۹) تا ریخ طبر ی، ج۴، ص ۳۰۶
(۱۰) عبد الرزاق مقرّ م ، مقتل الحسین،ؑ ص ۱۸۹
(۱۱) وقعۃ الطف، ص ۱۰۹
(۱۲)حوالہ سابق، ص ۱۱۰، فا نأ لمحسنکم و مطیعکم کالوالد البرّو سوطی وسیفی علی من ترک امری وخالف عہدی …
(۱۳) حوالہ سابق، ص ۱۲۵
(۱۴) وقعۃ الطف ،ص ۱۲۵
(۱۵) حوالہ سابق ،ص ۱۲۶
(۱۶) وقعۃ الطف، ص ۱۷۴
(۱۷۔۱۸) تاریخ طبر ی، ج۳، ص ۱۵۲
(۱۹) الحیا ۃ الاجتماعیۃ والا قتصادیۃ فی الکو فۃ، ص ۴۹
(۲۰) الحیا ۃ الاجتماعیۃ والا قتصادیۃ فی الکو فۃ، ص ۴۹
(۲۱) وقعۃ الطف، ص ۱۱، تا ریخ طبر ی، ج۴ ، ص ۲۶۷
(۲۲) الحیاۃ الاجتماعیۃ والا قتصادیۃ فی الکوفۃ، ص ۲۱۹
(۲۳) وقعۃ الطف،ص ۱۲۵،تا ریخ طبر ی ،ج ۴ ، ص ۲۷۷
(۲۴) بحارالانوار، ج۴۵، ص ۴
(۲۵) حیاۃ الاما م الحسین، ج۲، ص ۴۵۳
(۲۶) بحارالانوار، ج ۴۵، ص ۸