Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، وہ بھی بخیل ہوتا ہے جو مال کو جائز طریقے سے کمائے اور ناحق طریقے سے خرچ کرے۔ وسائل الشیعۃ حدیث11468

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

کربلا میں پیاس

سوال ۸: کربلا میں پیاس کی کیا کیفیت تھی؟
جواب: معتبر تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے تین دن پہلے یعنی ساتویں محرم کو ابن زیاد کی طرف سے عمر بن سعد کو یہ حکم ملا، ’’ حسین اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ اور ایک قطرہ پانی بھی ان تک نہ پہنچنے دو‘‘ اور اس نے اس عمل کوعثمان پر پانی کی بندش کا انتقام قرار دیا۔ (۱) ابن سعد نے یہ حکم ملتے ہی عمر و بن حجا ج زبیدی کو پانچ سو سواروں کے ساتھ نہر فرات پر معین کر دیا تا کہ امام حسینؑ اور آپ کے ساتھی پانی نہ لے سکیں ۔ (۲) اس گرم صحرا میں پیاس کو برداشت کرنا وہ بھی عو رتوں اور بچوں کے لئے بڑا مشکل تھا، اس دوران پانی کے حصول کی مختلف کوششوں کا تذکرہ ملتا ہے، بعض کتب مقاتل میں ہے کہ امام حسینؑ نے اپنے لشکر کی حدو د کے اندر پانی پر دست رسی کے لئے کئی کنویں کھودے لیکن اس کی خبر جب ابن زیاد کو ملی تو اس نے ابن سعد کو مزید سختی کرنے اور کنویں کھودنے پر پابند ی لگانے کا حکم بھیجا۔(۳)
اسی طرح ہلا ل بن نافع کی قیادت میں رہنے والے ۳۰ سواروں اور ۲۰ پیادہ مجاہدوں کے ہمراہ حضرت عباس علیہ السلام نے رات کے وقت دریائے فرات پر جو حملہ کیا تھا اس کا بھی معتبر منابع میں ذکر کیا گیا ہے، یہ مجاہدین عمروبن حجاج کے دستے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد پانی کی ۲۰مشکیں بھرنے میں کامیاب ہوگئے ۔(۴) اگرچہ اس روایت میں صحیح وقت کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم اس میں یہ عبارت موجود ہے کہ ولما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش ’’یعنی جب امام حسین علیہ السلام اورآپؑ کے اصحاب پر پیاس کا شدید غلبہ تھا‘‘
بعض روایات میں منقول ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے روزِعاشورہ اپنی بہن زینب سلام اللہ علیہا کے چہرے پر پانی پھینکا اس لئے کہ جب انہوں نے امام مظلومؑ کی زبانی وہ اشعارسنے جن میں امامؑ کی شہادت کے نزدیک آن پہنچنے کا ذکر تھا تو وہ بے ہوش ہوگئی تھیں ۔(۵)
یہ روایت اجمالی طور پر شب عاشورہ پانی کے موجود ہونے پردلالت کرتی ہے، علامہ مجلسیؒ نے بحارالانوار میں پانی کی عدم قلت کے معاملے کو صبح عاشورہ تک، یہاں تک کہ پینے کے سلسلے میں بھی صراحت کے ساتھ بیشتر مقامات پر ذکر کیا ہے، اِس روایت میں منقول ہے کہ :
ثم قال لا صحابہ : قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر۔(۶)
’’پھرامامؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : اٹھو، پانی پیو ، شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعدامامؑ نے ان (اصحاب) کے ہمراہ نمازِ فجر باجماعت پڑھی ‘‘
مذکورہ بالا روایت میں ’’یکن آخر زادکم‘‘ کی عبارت سے نیز روزِعاشورہ سے متعلق دیگر روایات سے پتا چلتا ہے کہ پانی کے اس ذخیرے کے ختم ہوجانے کے بعد پھر پانی تک دسترس میسر نہ ہوئی اورامام عالی مقام علیہ السلام آپؑ کے اصحاب اوراہل حرم اپنی اپنی شہادت تک صحرائے کربلا کی طاقت خرسا( ناقابل برداشت) گرمی میں دشمنوں کے ساتھ جنگ کی شدت اور ناقابل بیان پیاس کو برداشت کرتے رہے۔ اس کے علا وہ بعض اصحاب کا نہر فرات پر جا کر پانی لانے کی کوشش کا پتہ بھی چلتا ہے۔
علامہ مجلسیؒ نے عمر بن سعد کے لشکر کے ایک فرد تمیم بن حصین خزاری کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
’’ اے حسین اور حسین کے ساتھیو! کیا تم نہر فرات کے پانی کو نہیں دیکھ رہے کیسے وہ سانپ کے پیٹ کی طرح چمک رہا ہے خدا کی قسم تم اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے یہاں تک کہ مو ت کا مزا چکھ لو‘‘(۷)
جنا ب حر نے بھی روزعاشورہ کوفیوں کو نصیحت کرتے ہوئے امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی کی بندش کے حوالے سے انہیں سخت ملامت کی۔ (۸)
بعض کتب مقاتل میں یہ بھی ملتا ہے کہ امام حسینؑ نے بھی پانی کے لئے کوشش کی اور شمر نے حضرت کو پانی سے روکا اور طنز آمیز گفتگو کی، جس کے جوا ب میں اما م پا کؑ نے اس پر نفرین کی۔(۹) اور علامہ مجلسیؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عباس نے جب جنگ کی اجازت مانگی تو امامؑ نے فرمایا ان پیاسے بچوں کے لئے پانی کی کوشش کرو، لیکن حضرت عباس اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور شہید ہو گئے۔ (۱۰)
(۱) بلا ذری،انساب الاشراف، ج۳، ص۱۸۰
(۲) حوالہ سابق
(۳) الفتوح، ج۵، ص ۹۱،فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورود علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تد عھم یشربوامنماء الفرات قطرۃ واحدۃ
(۴) واقعۃ الطف ، ص ۱۵۲
(۵) تاریخ یعقوبی ، ج۲، ص۲۴۴،وقعۃ الطف، ص ۲۰۱، لہوف ، ص ۱۰۴
(۶) بحارالانوار ، ج ۴۴، ص ۲۱۷
(۷) بحار الانوار ،ج۴۴،ص۳۱۷
(۸) انساب الاشرف ، ج۳، ص ۱۸۹، الارشاد ، ص ۴۵۳
(۹) ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبیین ،ص ۸۶ ، بحار الانوار ، ج ۴۵، ص ۵۱
(۱۰) بحارالانوار، ج۴۵، ص۴۱،۴۲