Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، امید ایک غمگسار دوست ہے غررالحکم حدیث1042، شرح نہج البلاغہ ج20ص340الحکم المنسوبۃ

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

امر با لمعروف اور خطرہ

سوا ل ۱۶ : امر با لمعروف اورنہی عن المنکر کی شر ا ئط میں سے ایک شر ط خطرے اور ضرر سے محفوظ ہو نا ہے ، یہ شر ط نہ صرف یہ کہ موجود نہیں تھی بلکہ یزید کے ماضی اور بنی امیہ کی حکومت کے سابقہ کردار ، ظلم و ستم اور بے گنا ہوں کے قتل و کشتا ر کو دیکھتے ہو ئے یہ
بات مسلّم تھی کہ یہ شرط پوری نہیں ہوگی اور اما م حسینؑ یا کوئی بھی اگر ایسا اقدا م کرے گا تو اسے سخت خطر ہ پیش آئے گا ایسی صورت میں امام حسینؑ نے کیسے اپنی نہضت شروع کی اورامر بالمعروف و نہی عن المنکرکا قدم اٹھا یا ؟
جواب : ہمیں چاہیے کہ اس وظیفہ کی شر ائط وخصوصیات ائمہ معصو مینؑکی رو ش سے سمجھیں ، ہر عمل کے جوا ز کی شر عی دلیل یہ ہے کہ ائمہؑ نے اسے انجا م دیا ہے دوسرے لفظو ں میں ائمہ ؑ کا کردا ر و رفتار احکام شر عی کی دلیل شما ر ہوتا ہے۔
لہٰذا مثال کے طوراگر دلیل نے امر با لمعر وف کو احتما ل تا ثیر اور امنیت از ضر ر کے ساتھ مشروط کیا ہو اورا پنے عمو م و اطلا ق کے ساتھ اس مو رد کو بھی شامل ہو جائے تب بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ عمل اس دلیل کا مخصص یا مقید ہو جا ئے گا اور یہ بات سب سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اہم تر مصلحت در پیش ہو تو پھر یہ دو شر طیں بے معنی ہو جا ئیں گی ایسی صورت میں امر با لمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا ہو گا اگر چہ ضرر اور خطرے کا احتما ل ہی کیوں نہ موجو د ہو، لہٰذا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی مصلحت کی اہمیت کا احتمالِ ضرر کے ساتھ موازنہ کر نا ہو گا ، اگر اس فریضہ کی مصلحت اہم ہو اور شر عا ً اس کی ادائیگی ضرور ی ہو (جیسے کہ بقا ء کا تقاضا ہو ) تو پھر وہ ضرر برداشت کر نا ضرور ی اور امر با لمعر وف کو ترک کرنا جا ئز نہیں ہوگا۔
دوسرے لفظو ں میں امر بالمعر وف و نہی عن المنکر عام حالا ت میں کہ جب لوگوں کو گنا ہ ومعصیت سے روکنا اور واجبا ت کی ادائیگی پرآمادہ وتیار کر نا مقصو د ہو تا ہے یہ فرق رکھتاہے اس امر با لمعرو ف و نہی عن المنکر سے جو کلیت و عمو م رکھتا ہے دین کی بقا ء اور احکام و شعائر الٰہی کا احیاء اس پر موقو ف ہو جس کا تر ک کرنا مسلمانوں کے لئے نا قابل برداشت نقصانات و مشکلات کا باعث بن سکتا ہو، جیسا کہ یز ید کے دور میں اسلامی معا شرہ کفر کی قومیت میں بدل جا نے کے قر یب پہنچ چکا تھا اور حالا ت کو دیکھ کر پتہ چل رہا تھا کہ عنقریب دین و شریعت کے آثا ر مٹ جا ئیں گے اور اسلام کا فاتحہ پڑ ھ دیا جا ئے گا ۔
پہلی صورت میں امر با لمعرو ف و نہی عن المنکر میں یہ شر ط ہے کہ ضرر سے امنیت ہو لیکن دوسری صورت میں اس کا وجوب اس شر ط کے ساتھ مشر وط نہیں ہے، بلکہ ضرور ی ہے کہ دین کی مدد کی جا ئے اوراسلام سے خطرے کو دور کیا جائے، اگر چہ اس را ہ میں اپنی جان و مال کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔
یہ خطر ہ جو دین کو در پیش تھا اما م حسینؑ ہر کسی سے زیادہ اس خطرے کا احسا س کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ اس قیام کی ابتدا ء ہی میں جب مدینہ میں مروان نے آپ کو مشورہ دیا کہ یزید کی بیعت کر لیں تو آپ نے فرما یا :
انا للّٰہ وانا الیہ راجعو ن وعلی الاسلام
السلام اذقد بلیت الامۃ براع مثل یزید
’’اس مصیبت پر کلمہ استر جاع پڑھا جا ئے اورا سلام پرسلام وداع بھیج دیا جا ئے جب امت کی حاکمیت یزید جیسے شخص کے ہاتھ میں ہو‘‘
یعنی جب یز ید مسلمانوں کا حاکم ہو تو اسلام کا انجا م معلو م ہے جہاں یزید ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں یز ید نہیں ہو سکتا،ایسے منکر اور خطرے میں امام حسینؑ پر اسلا م کے دفا ع کے لئے کھڑا ہونا لازم ہو جا تا ہے وہ اسلام کے مو رچے کو خالی نہیں چھوڑسکتے، چاہے اس میں ان کی اپنی اوران کے عزیزوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور ان کی بہنیں اور بیٹیاں اسیر ہو جائیں ۔ کیونکہ اما م پا کؑ اسلام کی بقا ء کو اپنی جان سے بڑھ کر سمجھتے تھے، لہٰذا آپ نے اپنی جان اسلام پر قربا ن کر دی باوجود اس کے کہ آپ کے بچوں اور خاندان والوں پر بے پنا ہ مصیبتیں آئیں اور بڑی سختی سے دوچار تھے لیکن آپ نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی نہ کی ۔
پس اما م حسینؑ کا قیا م امر با لمعر و ف و نہی عن المنکر کفر و الحا د اور ظلم و ستم سے مقابلہ و مبا رزہ کی خاطر تھا ، امر با لمعر وف اور نہی عن المنکر اور ظلم و ستم کے خلا ف ایسے مبا رزہ کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی کہ ایک شخص ( اما م حسینؑکی طرح ) اپنے خا ندا ن والوں کے ساتھ قیا م کرے اور یہ سب ظالم لشکر کے گھیرے میں ہو ں پھر بھی اپنی عز ت نفس کی حفا ظت کرتے ہو اپنے شرعی فریضے پر کار بند رہے ۔
یہ اما م حسینؑ ہی کی ہستی جنہوں نے کر بلا میں یوم عاشورہ امر با لمعر وف و نہی عن المنکر کی خاطر ایسی شجا عت اور قو ت قلبی کا مظا ہر ہ کیا کہ بڑے بڑے امتحا نات سے سرفراز و سرخر و ہو کر با ہر نکلے اور شہیدان راہ حق میں سے سید الشہداء کے رتبہ پرفا ئز ہوئے۔ یہاں پر مناسب ہے کہ شہید مرتضیٰ مطہر ی کے ایک لطیف بیان کی طرف اشا ر ہ کیا جا ئے کہ وہ فرماتے ہیں :
’’امربالمعر وف ونہی عن المنکر کے وجوب کو اس صورت میں تو سب مانتے ہیں جب اس پر کوئی ضرر متر تب نہ ہو،لیکن جب ضرر کا سامنا کرنا پڑے تو اس صورت میں بعض کہتے ہیں کہ اب یہ وظیفہ واجب نہیں رہے گا ، اس کا وجو ب وہیں تک ہے جب تک امر و ناہی کو کسی قسم کا کوئی جانی و مالی یا ناموس کا ضرر ، درپیش نہ ہو ، ان لوگوں نے اس اصول کی قدر و قیمت کو گھٹا دیا ہے۔ جب کہ بعض کہتے ہیں کہ امر بالمعرو ف و نہی عن المنکر اس سے کہیں بڑ ھ کر ہے ۔ اگر یہ ایک معمو لی سا مسئلہ ہو تو پھر ضر ر کے احتما ل کے ساتھ ہی اس کا وجو ب ختم ہو جائے گا ۔ لیکن اگر کسی جگہ پر قرآن ، عدالت اور وحد ت اسلامی خطرے سے دوچا ر ہوں تو اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یہاں امر بالمعروف نہیں کروں گا چونکہ میری جان کو خطرہ ہے یا میری عزت کو خطرہ ہے یالو گ اسے پسند نہیں کر تے ‘‘
پس معلو م ہو ا کہ اہم بڑے مسائل میں امر با لمعرو ف اور نہی عن المنکر کے لئے کوئی حدنہیں ہے بلکہ بڑے بڑے خطر ات و نقصا نات کے با وجو د یہ وظیفہ واجب ہو گا ۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ سیدا لشہدا ء کی تحریک نے امر با لمعر و ف و نہی عن المنکر کی قدر و قیمت انتہا ئی عظیم مر تبے پر ثابت کر دی ۔ آپ نے نہ صرف اپنی جان اس راہ میں قربا ن کر دی،
فروع کافی، ج۵، ص ۵۹
پس معلو م ہو ا کہ اہم بڑے مسائل میں امر با لمعرو ف اور نہی عن المنکر کے لئے کوئی حدنہیں ہے بلکہ بڑے بڑے خطر ات و نقصا نات کے با وجو د یہ وظیفہ واجب ہو گا ۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ سیدا لشہدا ء کی تحریک نے امر با لمعر و ف و نہی عن المنکر کی قدر و قیمت انتہا ئی عظیم مر تبے پر ثابت کر دی ۔ آپ نے نہ صرف اپنی جان اس راہ میں قربا ن کر دی، اپنے عزیز وں کی قر با نیاں بھی پیش کر دی بلکہ اپنے اہل بیت کی قید پر بھی اس راہ میں راضی ہو گئے ۔ اما م پا کؑ کے اس عمل سے ثابت ہو گیا کہ اہم مسا ئل میں امر با لمعر و ف و نہی عن المنکر ہر قسم کے خطر ے کے با جو د واجب ہوگا۔
سوال ۱۷ : شر عی تکالیف کی عمو می شرائط میں سے ایک شر ط قدرت ہے اور اہل بیت عصمت و طہارت کی روا یا ت میں بیان ہو ا ہے کہ یہ فریضہ صرف ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ جو اس کی قدرت رکھتے ہوں جب کہ اما م حسینؑ اپنی نہضت و قیا م میں لوگوں کی جہالت، بے دینی اورعافیت طلبی وغیر ہ جیسے عنا صر کی وجہ سے ان کی حما یت و مدد سے محرو م تھے اور آپ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ایک مقتدر و مسلح حکومت کو نہیں گرا سکتے تھے تو پھر آپ نے کیونکر مسلح قیام کیا اور امر با لمعروف و نہی عن المنکر پر اقدا م کیا؟
جو اب : شہید مطہر ی اس بارے میں فر ما تے ہیں :
’’امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے لئے ایک اور شرط قدرت ذکر کی گئی ہے انما یجب علی القوی المطلع ۔ (۱)
’’کمزور ناتوا ں شخص کو امر با لمعر و ف اور نہی عن المنکر نہیں کر نا چاہیے ، بلکہ اپنی قدرت کو محفو ظ رکھتے ہو ئے نتیجہ حاصل کر ے ، جہاں طاقت خر چ ہو وہاں ایسا قدم نہ اٹھا ئے ‘‘
یہاں بھی بعض سے ایک بہت بڑ ی غلطی ہو ئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میں فلاں کام کی قدرت نہیں رکھتا اوراسلام بھی کہتا ہے اگر تم میں قدرت نہیں ہے تو نہ کر و ،پس مجھ سے تکلیف سا قط ہے، ایسے لوگوں کے لئے جوا ب یہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ جا ؤ قدر ت حاصل کر و یعنی قدرت شر ط وجود ہے جس کی تحصیل ضرور ی ہو تی ہے جیسا کہ وضو ء نما ز کے وجود کی شر ط ہے نہ کہ قدر ت شر ط وجو ب ہے کہ جس کی تحصیل ضرور ی نہیں ہو تی جیسے استطاعت وجوب حج کی شر ط ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے تو قدرت کی تحصیل ا س حد تک واجب واہم ہے کہ کبھی حرا م کام بھی واجب ہو جا تا ہے مثلاً خلفا ء جو ر سے کوئی عہدہ لینا اور ان کی حکومت میں خدمت کر نا حرام ہے ۔لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس عہد ے کے ذریعے آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پرقدر ت حاصل کر سکتے ہیں تو آپ پر اس عہد ے کو لینا واجب ہے اور تا ریخ اسلام میں ایسے اشخا ص موجود ہیں جنہوں نے ائمہ معصو مینؑ کے حکم سے حکومت جور میں عہدے لئے تا کہ ایسی قدر ت حاصل کر سکیں ۔
بعض کے نزدیک قدر ت شر ط وجو ب ہے کہ اگر خو د بخو د قد رت حاصل ہو جائے تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے ور نہ واجب نہیں ۔ ان کے جو ا ب میں عرض کریں گے کہ دیکھیں اسلام کی نظر میں اس فر یضہ کی کتنی اہمیت ہے؟
اس اصو ل کی اہمیت اتنی زیا دہ ہے کہ اسے بقا ئے اسلام کا ضا من قرا ر دیا گیا ہے اوراس کی خا طر امام حسینؑ اورا ن کے ساتھی شہید ہو جا تے ہیں اور اہل بیت عصمت و طہارت کی مستورات قید ہو جا تی ہیں ، ایک رو ایت میں آخر ی زما نے کے بعض لوگوں کی مذمت کر تے ہو ئے ارشا دفر ما یا گیا ہے :
لا جبون امر ا بالمعر و ف ونھی عن المنکر الا اذ ا امنوا ا لضر ر۔
’’لو گ امربا لمعر وف و نہی عن المنکر صر ف اس وقت واجب قرار دیتے ہیں جب انہیں کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو ‘‘(۲)
دوسری حدیث میں اما م محمد با قر علیہ السلا م سے مر و ی ہے :
ان الا مربا لمعروف وا لنھی ون المنکر سبیل الا نبیا منھاج
1.
(۳) حوالہ سابق
(۴) حما سہ حسینی ،ج۱ ، ص ۳۱۲۔۳۰۴
ان الا مربا لمعروف وا لنھی ون المنکر سبیل الا نبیا منھاج الصلحا ء بھا تقا م الفرایض وتا من المذا ھب و تعمرالارض وینتصف من الا عداء۔ ۔(۳)
امر بالمعر و ف و نہی عن المنکر انبیا ء کا راستہ ہے صالحین کاشیو ہ ہے اس سے فریضے قائم ہو تے ہیں ، راستے پُر امن ہوتے ہیں زمین آبا د کی جاتی ہے اور دشمنوں سے حقوق حاصل کیے جا تے ہیں ‘‘

جس فریضہ کی اتنی زیا دہ اہمیت ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ اگر اتفاقاًاس کی قدرت تم میں موجو د ہو تو اسے انجا م دو ورنہ ضرور ت نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ اگر اتفاقاً تم اپنے آپ میں یہ قدرت پا ؤ کہ اسلام کی حفا ظت کر سکتے ہو تو کرناورنہ اگر دیکھو کہ ایسا نہیں کر سکتے تو ضرور ت نہیں ہے ۔ احتما ل تا ثیر والی شرط کے بارے میں بھی یہی کہیں گے یعنی یہ نہیں کہہ سکتے کہ چو نکہ احتما ل تا ثیر موجود نہیں ہے لہٰذا یہ تکلیف سا قط ہے۔ (۴)احتمال تاثیرکے حوالے سے صحیح طریقہ کار دیکھنا ہو تو واقعہ عاشورہ میں دیکھیں کہ اہل بیتؑ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو بھی اختتا م کار نہیں سمجھتے بلکہ ابن زیاد و یزید کے درباروں میں اس حسینی مقصد وہدف کو پورا کر تے ہو ئے نظر آتے ہیں یعنی ان کی نظر میں شہادت امام حسینؑ ایک لحاظ سے اس تحریک کا نقطہ آغاز تھی نہ کہ انتہاء ۔