Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک دوسروں کے لئے اچھائی کی اسی بات کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے کنزالعمال حدیث95

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

سوا ل۱۸: امر با لمعر وف و نہی عن المنکر کے وجو ب کی ایک شرط احتما ل تا ثیر ہے اوریہ چیز اما م حسینؑ کی نہضت میں موجود نہیں تھی، کیونکہ معلوم تھا کہ یزید اور یزیدی نہ حکومت کو چھوڑ یں گے اور نہ اپنی روشن کو چھوڑ یں گے پس اما م حسینؑ نے کس شر عی دلیل و حجت کے ساتھ اس کام پر اقدا م کیا اور اس کا م کو اپنا ایک مقد س و واجب وظیفہ شما ر کیا ؟
جوا ب : جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امر با لمعر و ف و نہی عن المنکر کی شر ا ئط ، خصوصیات اور احکا م ہمیں اما م حسینؑسے سیکھنے چاہئیں ، جس عمل کے جواز کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ اما م حسینؑ نے اسے انجا م دیا ہے ، اما مؑکا عمل و گفتا ر احکام شر عی کی دلیل ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف سے احتما ل تاثیر دو طرح کا ہو تا ہے ، ایک دفعہ ایک شخص معصیت و گناہ انجام دے رہا ہے اسے نہی عن المنکرکر نا چاہتے ہیں ۔اس میں اگر تاثیر کا احتما ل نہ دیں تو اسے نہی از منکر کر نا وا جب نہیں ہے لیکن کبھی نہی عن المنکرکی تا ثیر کااحتما ل فی الحال تو نہیں ہو تا لیکن یہ ہمیں علم ہے کہ مستقبل میں اس پر اثر واقع ہوجائے گا تو اس صورت میں نہی عن المنکرواجب ہے یہ ویسے ہی واجب ہے جیسے فی الحا ل احتما ل تا ثیر ہو تو وا جب ہو تا ہے۔
مثلاًاگرہم احتما ل دیں کہ اگرگمراہ فر قو ں میں سے کسی ایک سے یا گناہ و فساد پھیلانے والے مرکز سے مقابلہ کر تے ہو ئے ان کے نقصا نات ، برے اثرات اور برے مقاصد لوگوں میں بیان کئے جائیں تو کچھ مدت کے بعدیہ مراکز بند ہوسکتے ہیں اور معاشرے میں ان کے فسا د میں کمی کی جا سکتی ہے یا کم از کم ان کے فسا د کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے ، اگر ان کے کارند ے اپنی حرکتوں سے ہاتھ نہ ہی کھینچیں تو کم از کم ہمارے نہی عن ا لمنکر کی وجہ سے ان کا منفی پر و پیگنڈا مزید گمرا ہی کا باعث تو نہیں بن سکے گا۔ اس مو رد میں جب کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تا ثیر احتما ل مستقبل میں موجود ہے تویہ وظیفہ واجب ہو گا، آج کی دنیا میں بھی جن اقو ام نے غلامی کی زنجیریں تو ڑ کر آزادی و استقلا ل حاصل کیا ہے انہوں نے یہی راستہ منتخب کیا ، انہوں نے قربا نیاں دی،سختیاں جھیلی اور جذبات کو ابھارا، اس کے با وجو د دشمن کو عمومی نظروں میں شر مسار کیا ، ان کے قبضے اور تسلط کی بنیادیں کمز و ر کر تے ہو ئے با لا ٓخر تد ریجا ً اسے ختم کر دیا ،ا ن مبا ر زوں میں جس نے پرچم ہاتھ میں اٹھا لیا وہ کامیا ب ہو گیا، ان کی قربانی کی قیمت ان کی ملت کی آزا دی اور غیر وں کے قبضے سے چھٹکارے کی صورت میں حاصل ہو ئی،ا ن کی اس جنگ کا نتیجہ اگرچہ مستقبل میں حاصل ہو نے والا تھا لیکن یہ کا میا بی و سر خر و ئی کی جنگ شما ر کی جا تی ہے ،کیونکہ ان کا ہدف حکومت و اقتدا ر نہیں بلکہ ملت کی اصلا ح و نجا ت ہوتا ہے، خدا والے بھی اپنے الٰہی انسانی بلند اہدا ف کی خا طر کبھی ایسے مبارزات کے لئے اٹھتے ہیں ، باوجو د اس کے کہ وہ جا نتے ہیں دشمنا ن خدا انہیں قتل کر کے ان کے سر نیز وں پر اٹھا لیں گے، لیکن پھر بھی وہ اسلام و توحید کی نجا ت کے لئے جنگ و جہا د کر تے ہیں تا کہ ان کے قیا م کی وجہ سے لوگوں میں آہستہ آہستہ بیدا ری پیدا ہو اور تاریخ کا رخ موڑ ا جاسکے۔
اُس دور میں جو صورتحال پیش آچکی تھی اس میں احکام قرآن اور وجود اسلام کو بڑے سخت خطرا ت کا سامنا تھا، جن سے اسلام کا مستقبل تا ریک نظر آرہا تھا ، یہاں تک کہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ عنقر یب اسلام کا سور ج ڈوب جا ئے گا اور شر ک و جا ہلیت دوبارہ لوٹ آئے گی ، اب کیا امام حسینؑ صر ف احتما ل ضر ر یا حتیٰ یقینی ضرر کے پیش نظرہا تھ پر ہاتھ رکھ کر گھربیٹھ جاتے اور اسلام کو یوں غروب ہو تا دیکھتے رہتے، ان سب عوامل کے علاوہ شرط احتمال تا ثیر موجود تھی ،بلکہ امام حسین علیہ السلام کو تا ثیر کا یقین تھا، آپ کو علم تھا کہ آپ کی نہضت و قیا م اسلام کو مکمل محفو ظ کر کے اس کی بقا ئے کلی کا ضامن بن جا ئے گا ۔ آپ جانتے تھے کہ اگر بنی امیہ آپ جیسی ہستی ( جو کہ نواسہ رسول، لوگوں کی اسلامی و معنو ی امنگوں کے تر جما ن اور معا شرہ کے انتہا ئی پاکیزہ و معزز و محترم افر اد میں ہیں )کو قتل کر دیں تو پھران کا اقتدا ر بھی مستحکم نہیں رہ سکے گا، لوگوں کی شدید نفر ت اور غیظ و غضب کا ایک سیلاب ان کی طرف بہہ نکلے گا جس سے بچنے کے لئے انہیں دفا عی حالت اختیا ر کرنا ہو گی تاکہ چند دن اپنی منحو س حکومت کے لر زتے ہو ئے ستونوں کو مزید کھڑا کر سکیں ۔
سید الشہد اء جا نتے تھے کہ آپ کی شہا دت اورخاندانِ اہل بیت کی اسا رت سے لوگوں پر بنی امیہ کی اسلام اور رسو ل اکرم ؐ کے ساتھ دشمنی اور ان کی حکومت کی حقیقت و ماہیت روشن ہو جائے گی اور آپ کی شہا دت کا رد عمل یہ ہو گا کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کی جڑیں مضبو ط ہو ں گی،ا مو یوں کے سامنے سر کشی و نافر ما نی کی جرا ٔ ت ان میں پیدا ہو گی اور لوگوں کا دینی شعو ر اوراسلامی احسا س بید ار ہو گا۔
امام حسینؑ جا نتے تھے کہ بنی امیہ جب آپ کو شہید کریں گے تو ان کی حکومت بد نام ہو جائے گی اورلوگوں پر ان کی حکومت کا غلط راستہ روشن ہو جا ئے گا اور یہ بات تو واضح ہے کہ جو حکومت دین اور خا ندان رسا لت کی دشمن ہو تو اگرچہ لو گوں پر کچھ مد ت تک فرمانروا ئی کر سکتی ہے لیکن اسلامی خلافت کے عنو ان سے مزید حکومت نہیں کرپائے گی۔
واقعہ کر بلا نے مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ ایسے ہی تھا جیسے خو د رسول اکرمؐ کو شہیدکردیا گیا ہو، تما م شہر وں میں امو ی حکومت کے خلاف لوگوں کے غم و غصہ سے بھرپور جذبا ت ابھرتے چلے گئے اور پے در پے تحر یکوں کا آغاز ہو نا شر وع ہو گیا یہاں تک جو حکومت اسلام کے نام سے کفر وشرک کی تر و یج کر رہی تھی گر گئی اوراہل بیتؑ کے پا ک خون کا صلہ یہ ملا کہ اسلام نجات پا گیا اور لوگوں کے دلوں میں بنی امیہ کے خلاف ایک دینی جذ بہ بیدار ہو گیا۔
پس معلو م ہو گیا کہ اما م حسینؑ کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر شر عی و فقہی لحا ظ سے بھی واجب تھا اور اما م پا کؑ نے اس فریضہ کی ادا ئیگی کی خا طر اپنی اور اپنے عزیز ترین اور لائق ترین جوانوں اور سا تھیوں کی جانیں بھی قر با ن کر دیں اور سب کو عظیم اسلامی مقاصد پر قر با ن کر دیا ، باوجود اس کے کہ آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے لیکن آپ نے ثابت قدمی کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے اپنے دین اور ہد ف کادفا ع کیا ۔
یہاں پر شہید مطہر ی کی بات کی طرف اشا ر ہ کر دینا زیا دہ منا سب ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک اور شر ط احتما ل تا ثیر ہے یعنی یہ فریضہ نما ز و روزہ کی طرح صرف تعبد ی نہیں ہے مثلاً ہمیں حکم ہے کہ ہر حال میں نماز پڑھو ،اب یہ سوا ل نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کیا میرا نما ز پڑھنا اثر رکھتا ہے یانہیں ، لیکن امر بالمعروف و نہی عن المنکر کوحکمت عملی کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے یعنی فائدہ کو مدنظر رکھیں ، فائدہ خر چ سے زیادہ ہونا چاہیے، یہ نظر یہ خوارج کے نظر یئے کے برعکس ہے وہ کہتے تھے کہ حتیٰ اگر ذرہ برابر بھی تاثیر کا احتما ل نہ ہو تب بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہیے۔بعض نے خوا رج کی نابودی کی وجہ اسی چیز کو قرار دیا ہے، تشیع میں تقیہ کا حکم جو آیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں حکمت عملی ضروری ہے، تقیہ کے لغو ی معنی دفا عی اسلحہ سے استفا دہ کے ہیں ،یعنی جنگ میں ضرب لگا ؤ لیکن کوشش کرو کہ تمہیں کوئی نقصا ن نہ پہنچے، احتمال تا ثیر کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ آپ گھر میں بیٹھ جا ئیں اور کہیں کہ میں احتما ل تا ثیر دیتا ہوں یا نہیں دیتا ہوں بلکہ آپ پر لازم ہے کہ جا کر تحقیق کریں اور دیکھیں کہ آیا فائد ہ ہوتا ہے یا نہیں ، بغیر تحقیق کے یہ بات قابل قبو ل نہیں ہوگی ‘‘