Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، بخل تمام عیبوں کا مجموعہ ہے، وہ ایسی مہار ہے جس کے ذریعہ ہر برائی کی طرف کھینچ کر لے جایا جاتا ہے۔ نھج البلاغۃ حکمت 378

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

نفس کو ہلاکت میں ڈالنا

سوا ل ۲۳ : اگر انسا ن کا مقصد قتل ہو جا نا ، مظلو م بننا اور اہل و عیال کا قید ی بنا لیا جا نا ہو تو یہ تو اپنے آپ کو ہلا کت میں ڈالنے والی بات ہے جو کہ قرآن کی نظر میں {ولاتلقو ا بایدیکم الی التھلکۃ }(بقرہ ۱۹۵) جا ئز نہیں ہے، بنا برین کیسے اما م علیہ السلام قتل وشہادت کی خا طر نکلے اورآپ نے اپنے اختیا ر کے سا تھ اس کے مقد مات فراہم کیے؟
جو اب : ۱) القا ء نفس در التھلکۃ یا اپنے آپ کو ہلا کت میں ڈالنا یعنی اپنے آپ کواپنے اختیا ر کے ساتھ مو ت کے سپر د کر نا ان عنا وین میں سے ہے جن پر کبھی حرمت کا حکم لاگو ہو تا ہے اورکبھی وجو ب کا ،یوں نہیں ہے کہ ہمیشہ یہ موضو ع حرمت ہو بلکہ بعض حالا ت میں واجب ہو جا تا ہے ۔ باالفرض اگر آیت میں عمو میت پائی جا ئے تب بھی دوسری ادلہ کے ساتھ اسے تخصص لگا نا حتمی ہوگا ،اگر اسلام کو نابودی کا خطرہ در پیش ہو اور اسے بچا نا القا ء نفس در اتھلکۃ ( نفس کو ہلا کت میں ڈالنے ) پر مو قو ف ہو تو کیا یہاں بھی اسے حرا م کہیں گے ؟ کیا جو شخص اپنی جا ن بچا نے کی خاطر اسلام کو ہلا کت و خطرے میں ڈال دے اسے عقلاً و شرعاً ذمہ دار نہیں ٹھہر ا یا جا ئے گا؟ کیا یہ بہترین جہاد و ایثار کا مو ر د نہیں ہے؟
جہا د و دفا ع ، دعو ت توحید ، بشر کو غیر خدا کی پر ستش سے آزا دی دلا نا ، اسلام کی حفاظت کر نا ، دین کو نابودی سے بچانا یا اسلامی مملکت کی سرحد وں کی حفا ظت یہ سب وہ امور ہیں جن میں یقینا جانیں چلی جا تی ہیں پھر بھی یہ سب واجب ہیں ،اگر محا ذجنگ پر ایک اہم مورچے کی حفاظت میں لشکر کے بعض افرا د کا قتل ہو جا نا لازم آتا ہو لیکن ملک کی حفا ظت کی خا طر یہ نقصان بردا شت کیا جا تا ہے ، یہ جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا نہ صر ف جائز ہے بلکہ واجب ہے۔
۲) اسلام کا یہ حکم ( یعنی نفس کو ہلاکت میں ڈالنا حرام ہے) ایک ارشا دی حکم ہے نہ کہ تاسیسی حکم ہے یعنی اسلام نے یہ حکم عقل کی تا ئید میں دیاہے، عقل چو نکہ اسے قبیح کہتی ہے لہٰذا اسلام نے بھی اسے حرام کہاہے اور واضح ہے کہ عقل اسے وہاں قبیح کہے گی جہاں اہم ترمصلحت سامنے نہ ہو، لیکن اگر کوئی اہم تر مصلحت نفس کی ہلا کت پر مو قو ف ہو تو وہاں عقل اس کام کو نہ صرف قبیح نہیں کہے گی بلکہ جا ئز بھی کہے گی اور کبھی اسے لازم اور حسن کہے گی ۔
۳) ہلا کت و تھلکہ کئی طرح سے ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک قسم ضا ئع ہو نا ہے اورممکن ہے مذکو رہ بالا آیت سے مرا د یہی ہو اور یہ وہاں ہوگا جہاں ہلا کت کسی صحیح شرعی و عقلی مقصد کی خاطر نہ ہو لیکن اگر دین کی حفاظت اور احکام و شریعت کے دفا ع جیسے صحیح مقصد کی خاطر جا ن دی جا ئے تو اس کو القا ء فی درالتھلکہیعنی نفس کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں کہیں گے،جوشخص دین اور عمو می مصلحتوں کی خا طر قتل ہو تا ہے اسے ضا ئع نہیں کہیں گے بلکہ وہ دوام و ابدیت پا گیا ہے، پس معلو م ہو ا کہ کسی اہم دینی مصلحت کے حصول یا مفسدہ کے دفع کی خاطرجا ن دینا ہلاکت نہیں ہے بلکہ شہا دت ہے ، جیسا کہ مال کا خرچ کرنا اگر بلا مقصد ضائع کیا جا ئے تو یہ اسرا ف ہے جو کہ حرا م ہے، لیکن اگر عز ت و آبر و کی حفا ظت کی خاطرخرچ ہو تو بہت بجا و مشرو ع ہے۔
۴) میدان جنگ و جہاد میں مو رچے پر ڈٹ جا نا خصوصاً جہاں مو رچے کو چھو ڑنے سے لشکر اسلام کو شکست اور لشکر کفرکو کامیا بی مل سکتی ہو اگر چہ اس سے شخص کو اپنی شہادت کا یقین ہو نہ صرف ممددح و پسند ید ہ ہے بلکہ وا جب ہے ۔ کوئی بھی اس پا مر دی ، دلیر ی اور ثا بت قدمی کو ہلاکت شمار نہیں کر تا بلکہ یہ عمل تو ہمیشہ سے خصوصاً صد ر اسلام میں جنگجوؤں اور سپہ سالا روں کے قابل فخر کارناموں میں شما ر ہو تا رہا ہے ،جیسا کہ حضر ت جعفر طیار کی جنگ موتہ میں پا مر دی و ثابت قدمی اور ایثا ر و قر با نی اس کا اعلی تر ین نمو نہ تھی اسے ہمیشہ شہا دت و سعادت شمار کیا جاتا رہا ہے نہ کہ ہلاکت و خو دکشی ۔
۵) مذکورہ بالا آیت اگرچہ نفس کے ہلاکت میں ڈالنے کی حرمت پر دلا لت کر تی ہے لیکن اس آیت میں القاء فی التھلکۃکو حرا م قرار دیا گیا ہے یہ اس طرح نہیں ہے کہ جہاں نہی کا تعلق خارجی امور جیسے شر اب و خنزیرسے ہو تا ہے بلکہ اس کا مصدا ق تب ہی متحقق و وجود پذیر ہو گا جہاں یہ عنو ا ن منطبق ہو گا اب ممکن ہے ایک اقدا م یا ایک عمل ایک شخص کی نسبت تو اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے میں شما ر ہو لیکن کسی دوسرے شخص کی نسبت ایسانہ ہو،ان چند مقدمات کے بیان کے بعد اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ :
پہلا تو یہ : کہ اما م پوری امت میں سے وہ فر د ہے جو شر عی احکا م کا سب سے زیا دہ عالم اور ہر طرح کی خطاء و اشتبا ہ سے معصو م ہے، لہٰذا اس سے جو عمل بھی صادر ہو گا وہ امر الٰہی کے عین مطابق ہو گا۔
دوسرا یہ کہ : بنی امیہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کر کے ہی دم لیتے چاہے آپؑعر اق جا تے یا وہیں مکہ میں رہ جاتے ، آپؑنے اس بارے میں تما م مصلحتوں کا ملا حظہ فرمایا اور جو بھی آپ کے قیام کو دقت نظر کے ساتھ ملاحظہ کرے گا وہ سمجھ سکتا ہے کہ آپ کی انتہا ئی کوشش یہ تھی کہ آپ کی شہادت و مظلومیت سے اسلام کی بقا ء اور احیا ء دین کوزیاد ہ سے زیا دہ فا ئد ہ پہنچے اور اس مقصد کے لئے آپ نے تمام ترضروری اقدا مات کئے ۔
تیسرا یہ کہ : اما م حسینؑ کا اپنے قیا م، بیعت نہ کر نے اور ان تما م مصا ئب کوبرداشت کرنے سے صرف اور صرف مقصد دین و شر یعت کو نجات دلا نا تھا اور یہ وہ عظیم مقصد و ہدف تھا جس کے لئے اپنی اوراپنے ساتھیوں کی قربا نی دینا بھی مہنگا سودا نہیں تھا۔ اس وجہ سے آپ نے شہادت کو اختیار کیا اور بڑی بڑی مصیبتوں کو خندہ پیشا نی سے سہہ لیا ۔
اما م حسینؑ کا اصل مقصد حکم خدا کی انجام دہی ، حق کی حما یت اور بنی امیہ کی حکومت کا بطلان ا ور ان کے افکا ر و اہد اف کی نا بو دی تھا اور ان اہدا ف و مقا صد کا حصول اس بات پر مو قو ف تھا کہ ان کے سامنے سر نہ جھکا یا جا ئے اور سر حد شہا دت تک استقا مت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جا ئے،لہٰذا دین وعقید ہ کی حفا ظت کی خا طر استقا مت و ثا بت قدمی باعث سر بلند ی و فخرشمار ہو گی اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالناکے موضو ع سے خارج ہے