Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، توبہ چار ستونوں پر قائم ہے، دل سے پشیمانی، زبان سے استغفار، ظاہری اعضاء سے عمل اور اس بات کا پختہ ارادہ کہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا۔ بحارالانوار کتاب الروضۃ باب16حدیث74

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

سوا ل ۵۳ : خوشی و خرمی کی دین کے ساتھ کیا نسبت ہے ،کیا دین خوشی کی حوصلہ افزا ئی کرتا ہے یا دین میں جمود کا باعث ہے؟
جو اب : قرآن او ر سیرت معصو مین علیہم السلام کی رو سے اسلام خو شی و سرور کو قبو ل کرتا ہے ، خو شی انسان کو سستی و کاہلی سے نکال کر اسے مکمل چست اور تر و تا زہ کر دیتی ہے، لیکن اس میں افراط و حد سے تجاوز نہیں ہو نا چاہیے بلکہ حد اعتدا ل میں رہنی چاہیے ۔
۱) اسلا م اور انسان کی بنیا دی ضروریات
بہتر ین مذہب وہ ہے جو انسا ن کی طبیعت اوراس کے نظا م خلقت سے ہم آہنگی رکھتا ہو، اس کی طبعی اور فطر ی ضر وریا ت کو پو را کر ے ور نہ وہ مذہب نا قابل عمل ہے اور نہ ہی انسان کی سعادت و خوش بختی کی ضما نت دے سکتا ہے ، اسلام کی تعلیما ت انسان کی ضروریا ت کو پو را کر نے کے لحا ظ سے اس کی فطر ت سے مکمل ہم آہنگ ہیں ۔ (۱)
یہی وجہ ہے کہ اسلام جزیرۃالعر ب سے نکل کر دنیا کے آخر ی کو نے تک پھیل گیا علامہ طبا طبا ئی فر ما تے ہیں :
’’ اسلام نہ انسا ن کواس کی خواہشا ت اور فطر ی ضروریا ت سے محروم کر تا ہے اور نہ ہی اپنی کلی تو جہ ما دی پہلوؤں کی سیر ابی پر مبذو ل کر تا ہے، نہ انسا ن کو اس دنیا سے جد ا کر تا ہے جس میں انسا ن رہ رہا ہے اور نہ اسے دین و شریعت سے بے نیاز شمار کر تا ہے ، ان تین پہلوؤں سے ایک ایسا مثلث تشکیل دیتا ہے کہ
فا قم وجھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطرا لنا س علیھا
انسان ان کی حدو د میں رہتے ہوئے مطلو بہ کمال کو حاصل کرے اور ابدی سعا دت کو پا لے ، اگر ان پہلوؤ ں میں سے کسی ایک کو
بھی بھلا دیا جا ئے تو انسا ن انسانیت کے اوج سے گر جائے گا‘‘(۲)
۲)خو شی و سرور ایک ضرورت
۱:۔خو شی و سرو ر کی مختلف تعریفیں بیان ہو ئی ہیں جیسے:
۲:۔ وہ مثبت احسا س جو کامیابی کی حس کے پورا ہو نے پر حاصل ہو،(۳)
۳:۔وہ لذا ت جن میں کوئی رنج و غم نہ ہو‘‘ـ ۔(۴)
۴:۔وہ حالت جو خوا ہشا ت کے پورا ہو نے پر انسا ن میں پیدا ہو تی ہے ‘‘(۵)
اس حقیقت کی اگر چہ مختلف پہلوؤں کے لحا ظ سے تشریح کی گئی ہے لیکن تما م مفکرین اور دانش مند وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ انسا ن کی بنیادی ضرور ت شمار ہوتی ہے ، آپ کو ایساشخص کہاں ملے گا جو کہے کہ مجھے خوشی کی ضرورت نہیں ہے در حقیقت اس کائنات اور اس کی موجودات کے نظا م کی تشکیل اس طر ح ہو ئی ہے کہ یہ انسا ن کے اندر سرور و خوشی کی لہر ایجا د کردیتا ہے ، پر طراوت بہا ر ، با لطافت صبح ،خوبصو رت قدر تی مناظر ، یہ بہتے جھرنے ، رنگ بر نگ پھو ل ، دوستوں سے میل ملاقا ت ، انسا ن کی شا دی وغیر ہ سب سرو ر و
(۲) علا مہ طبا طبا ئی ، تفسیر المیز ان، ج۱۶ ،ص ۲۰۳
(۳) انگیزش و ھیجا ن ،ص ۳۶۷
(۴) روانشنا سی شا دی ،ص ۴۲اور ۱۷۲
(۵) روانشناسی شا دی ، رو ان شنا سی کمال
(۶) جلوہ ھای شادی در فرہنگ و شریعت ، ص ۴۷
اس حقیقت کی اگر چہ مختلف پہلوؤں کے لحا ظ سے تشریح کی گئی ہے لیکن تما م مفکرین اور دانش مند وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ انسا ن کی بنیادی ضرور ت شمار ہوتی ہے ، آپ کو ایساشخص کہاں ملے گا جو کہے کہ مجھے خوشی کی ضرورت نہیں ہے در حقیقت اس کائنات اور اس کی موجودات کے نظا م کی تشکیل اس طر ح ہو ئی ہے کہ یہ انسا ن کے اندر سرور و خوشی کی لہر ایجا د کردیتا ہے ، پر طراوت بہا ر ، با لطافت صبح ،خوبصو رت قدر تی مناظر ، یہ بہتے جھرنے ، رنگ بر نگ پھو ل ، دوستوں سے میل ملاقا ت ، انسا ن کی شا دی وغیر ہ سب سرو ر و مسر ت آور ہیں چو نکہ خو شی، خو ف، ناکامی ، نا امید ی اور پریشا نی کو ختم کر تی ہے اس لئے نفسیات کے ما ہر انسا ن میں خوشی کے احسا س کو بید ار کر نے اور مضبوط کر نے کا حکم دیتے ہیں اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز انسان کی بہت ہی بنیادی ضرورت ہے۔ (۶)
ہمان بھترکہ دائم شا د باشیم
بہ خوش رویی وخوش خویی در ایام
اگر خوش دل شوی درشاد مانی
زہر درد و غمی آزاد باشیم
ھمی رو تا شوی خوش دل در انجام
بما ند شادمانی ، جاودانی(۷)
۲) خوشی کے اسبا ب و عوا مل
دا نش مند وں کے نظر یا ت و اقوا ل اور معتبر کتب میں تحقیق سے یہ بات سا منے آئی ہے کہ در ج ذیل امور کو خوشی و سر ور کے عوا مل شما ر کیا جا سکتا ہے۔
۱
۴
۷
۱۰
۱۳
۱۶
ایمان
پریشانی سے مقابلہ
خوشبولگانا
خوشی کی محافل میں شرکت
کام و کوشش
خدا وند کی مخلو قا ت میں غو روفکر
۲
۵
۸
۱۱
۱۴
۱۷
بر داشت
ہنسی
بننا سنو رنا
ورزش
سیر و تفریح
صدقہ دینا
۳
۶
۹
۱۲
۱۵
۱۸
گناہ سے پر ہیز
مز اح
روشن رنگ پہننا
پر اُمید زندگی
تلا وت قرآن
سبزہ دیکھنا (۸)
چہا ر چیز ھر آزادہ رازِ غم بخرد
ھر آن کہ ایزدش این چھار روزی کرد
تن درست و خویِ نیک و نام نیک وخرد
سزد کہ شاد زِیَد شادمان وغم نخورد ۔(۹)
’’چا ر چیزیں ہر آزا د شخص کو غم سے چھٹکارا دلا تی ہیں ، صحت مند جسم ، اچھی عادت ،نیک نامی اور عقل ،جسے خدا وندنے یہ چار
(۷)ناصر خسرو
(۸)شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج۵، باب بلابس، شیخ طوسی ، امالی ، ح۴۵، بحار الانوار ، ج ۷۱، ص۹۵،
(۹)رودکی
’’چا ر چیزیں ہر آزا د شخص کو غم سے چھٹکارا دلا تی ہیں ، صحت مند جسم ، اچھی عادت ،نیک نامی اور عقل ،جسے خدا وندنے یہ چار چیزیں دے رکھی ہوں اسے خوش و خرم رہنے کاحق ہے‘‘
۴) اسلام اور خوشی
انسا ن کی بنیا د ی ضروریات کے پیش نظر اسلام نے خوشی و سرو ر کو اچھا شمار کر تے ہوئے اس کی تا ئید کی ، قرآن نے جو کہ اسلام کے مضبو ط ترین منا بع میں سے ایک ہے۔ خوشحال و خرم زند گی کو خدا وند کی نعمت و رحمت شما ر کیا ہے ، جس زندگی میں مسلسل گر یہ وزاری ہو اسے نعمت و رحمت سے دورقرا ر دیا ہے، چو نکہ قرآن میں ہے۔
فلیضحکو قلیلا ولیبکواًکثیراً (۱۰)
’’انہیں کم ہنسنا اور زیادہ رو نا چاہیے‘‘
اس آیت کاشان نز و ل یہ تھا کہ رسو لؐ خدا نے حکم صادر کر دیا تھا کہ جو مسلما ن بھی کفا ر کے مقابلے میں جنگ کر نے کی قدرت رکھتا ہے وہ جنگ کے لئے تیار ہو جا ئے ، بعض نے مختلف بہانوں کے سا تھ اس لشکر میں شر کت سے پہلو تہی کی اور خدا و رسول ؐ خدا کے حکم کے خلاف ورزی کر تے ہو ئے وہ جنگ پر نہ گئے ، خدا وند انہیں عذا ب کی دھمکی دیتے ہوئے فرماتا ہے: ’’ اس کے بعد تم ہنسنا کم اور رو نا زیادہ ۔‘‘
واضح ہے کہ یہ لعنت سزا کے طور پر ہے جو کہ آدمی کی فطر ت و طبیعت کے بر خلاف اسے مسلسل غم و رنج سے دو چا ر رکھتی ہے ، یہ خدا وند نے نا فر ما نوں کو کم ہنسنے اور زیادہ رونے کا کہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خو شی و تا زگی ایک فطر ی امر ہے اور خدا وند چا ہتا ہے کہ نافرمانوں کو سزا کے طور پر اس فطری نعمت سے محرو م کر دے ۔(۱۱)
قرآن نے جنت کی جو صفات ذکر کی ہیں ان سے بھی اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ اسلا م خو شی و نشا ط کی تا ئید کر تا ہے کیونکہ خو بصورت باغات ، آب زلا ل سے بھرے چشمے ،
(۱۰) تو بہ / ۸۲
(۱۱) گفتا ر ھا ،ج۲ ص ۲۲۵۔ ۲۲۶
(۱۲) سور ہ رحمٰن ، واقعہ و یٰسین
قرآن نے جنت کی جو صفات ذکر کی ہیں ان سے بھی اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ اسلا م خو شی و نشا ط کی تا ئید کر تا ہے کیونکہ خو بصورت باغات ، آب زلا ل سے بھرے چشمے ، خو بصورت بستر ، نرم و نازک اعلیٰ قسم کے لبا س او ر اسی طرح کی نعمتیں (۱۲)یہ سب خو شی و دلچسپی کے عوا مل ہی تو ہیں ، خدا وند نے انسا نوں کو خوش و خرم رکھنے کے لئے جنت اسی طرح خلق کی ہے۔
قرآن کریم بعض دوسر ی آیا ت میں خو شی کے بعض اسبا ب کو مو منین کے ساتھ مخصوص قرار دیتا ہے :
قل من حرم زینۃ اللّٰہ التی اخرج لعبا دہ والطیبا ت من الر زق قل ھیی للذین امنو فیی الحیا ۃ الدنیا خالصۃ یوم القیا مۃ ۔(۱۳)
’’اے پیغمبر ؐ ( نعمت سے اپنے آپ کو محروم کر نے والوں کو کہہ دو)کہ کس نے زیب و زینت کو حرا م کیا ،جیسے خدا وند اپنے بندوں کے لئے نکا لا ، کہہ دو یہ پا ک و پا کیز ہ نعمتیں مو منین کے لئے ہیں دنیا اور آخرت میں خا لصتاًا ن کے لئے ہیں ‘‘
یعنی دنیا میں یہ نعمتیں غیر نعمت کے سا تھ مخلو ط ہیں ،غم آلو د ہیں ،لیکن آخر ت میں ہر درد و غم و مشقت سے خالص ہوں گی۔
اس آیت کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام نعما ت زند گی اور طیبا ت سے بہرہ مند ہونے کو خوشی کے عوا مل کے طور پر بڑ ی اہمیت دیتا ہے اور انہیں مومنین ہی کے لا ئق قرار دیتا ہے، معصو مینؑ جو کہ وحی کے متر جم حقیقی ہیں بھی اسے بیا ن فرما تے ہیں ـ:
۱)رسول ؐ خدا نے فر ما یا :
’’ مو من مزاح کر نے والا خو ش و خرم ہوتا ہے‘‘(۱۴)
(۱۳) اعراف /۳۲
(۱۴) بحرا نی ، تحف العقو ل ،ص ۴۹
(۱۵) آمدی غر ر الحکم، حدیث ۲۰۲۳
۲) حضر ت علیؑ نے فر ما یا :
’’خو شی طبیعت کو کھو ل دیتی ہے ‘‘ (۱۵)
’’خوشی کے او قا ت غنیمت ہیں ‘‘ (۱۶)
’’جو شخص کم خو ش رہتا ہے موت اس کے لئے آرام دہ ہو گی ‘‘(۱۷)
۳) اما م صا دق علیہ السلا م نے فر ما یا :
’’کوئی مو من ایسا نہیں ہے جس کی طبیعت میں مزاح نہ ہو‘‘ (۱۸)
’’مزاح حسن خلق کا حصہ ہے ‘‘(۱۹)
۴) اما م رضا علیہ السلا م نے فر ما یا :
’’کو شش کر و تمہا رے اوقا ت چا ر حصو ں پر مشتمل ہوں ، ایک وقت خدا کی عبا دت و منا جات کے لئے ، ایک وقت روزی کے حصول کے لئے ، ایک وقت اپنے با اعتما د مومن بھا ئیوں کے سا تھ نشست کے لئے جو تمہیں تمہارے عیبو ں سے مطلع کریں اور باطن میں تمہارے ہمد ر د ہوں اورایک وقت اپنی تفریح و لذت کے لئے ، تفریح کے اوقا ت میں خوشی وسر ور سے تمہیں باقی اوقات میں کام وسعی کے لئے ضرور ی طا قت وحو صلہ ملتا ہے‘‘(۲۰)
سیر ت معصو مینؑمیں خو شی کے عنصر کو اس حد تک اہمیت حاصل ہے کہ اس پر زور
(۱۶) غر ر الحکم، حدیث ۱۰۸۴
(۱۷) بحا ر ،ج ۷۸، ص ۱۲
(۱۸) اصول کا فی، ج ۲ ،ص ۶۶۳
(۱۹)حوالہ سابق
(۲۰) بحا ر ،ج ۷۵ ،ص ۳۲۱
(۲۱) کافی، ج۲ ،ص ۱۹۲
سیر ت معصو مینؑمیں خو شی کے عنصر کو اس حد تک اہمیت حاصل ہے کہ اس پر زور دینے کے علا وہ اس کے ایجاد کے ماحو ل فر اہم کر نے پر بھی بڑی تا کید کی گئی ہے ۔(۲۱)
بعض احادیث میں خو شی و سرو ر کی اہمیت پر کلی احکام کے علا وہ خا ص احکا م ذکر کئے گئے ہیں کہ کیسے اس حالت کو باقی رکھا جا سکتا ہے اوراس کی پرور ش کی جا سکتی ہے جیسے پید ل چلنا، سواری ، تیر ا کی ، سبز ہ کو دیکھنا ، کھاناپینا، مسوا ک کر نا اور ہنسی مذا ق کرنا وغیر ہ (۲۲)
چو شا دی بکا ھد بکا ہد روان
خرد گردد اندر میان ناتوان۔(۲۳)
خوشی کے کم ہو نے سے روح میں کمی ہو جاتی ہے،
اس کے اندر کمزور تو پس جاتا ہے،
۵)خوشی وسرورکی حدود
زند گی کے ہد ف و انجا م کی بنیا د پر اسلام کی نظر میں خو شی و سرو ر حدود و قیود رکھتے ہیں ، خو شی و سرور کے مضا مین ، دین اسلام کی بیا ن کر دہ اعلیٰ انسانی وتو حیدی فطر ت کے منافی و متضاد نہیں ہونے چا ہئیں ،کیونکہ جوچیز بھی انسا ن کو اس کے اصل مقصد وار ما ن سے دور کر دے اسلام اسے قبول نہیں کر سکتا، لہٰذا خوشی و سروراور اس کے عوامل ایک حد تک اسلام کے لئے قابل قبول ہیں اوروہ یہ کہ نہ صرف انسا ن کو اس کے اصلی مقصد تک پہنچنے سے مانع نہ ہوں بلکہ اس تک پہنچنے میں اس کے معاون بھی ہوں ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم مفکرین قائل ہیں کہ چو نکہ انسا ن اپنے اختیا ر طرز عمل میں کسی نہ کسی مقصد و ہد ف کے پیچھے ہو تا ہے (۲۴)،لہٰذا خو شی و سرور بھی اس قا عدہ سے مستشنیٰ نہیں ہو ں گے بلکہ اس میں کو ئی نہ کوئی ہد ف و مقصد سا منے ہو نا چاہیے، لہٰذا اگر اس کا مقصد حق ہو اور انسا ن کی زندگی کے اصل مقصد کے لئے ممد و معاون ہوتو یہ بھی مفید و حق ہو گا اورا گر اس کے سا منے کوئی باطل مقصد ہو جو کہ زند گی کے اصلی مقصد کے مقابل ہو تو پھر خوشی باطل و مضر ہوگی ، پس خوش کی حدو د اس کے ہد ف و مقصد کو قراردیا جا سکتا ہے ،مذا ق جو کہ خوشی کے اہم ترین
(۲۲) وسا ئل، ج ۱۲، ص ۱۱۲ ،مستد رک الو سا ئل، ج ۸ ،ص ۴۱۸
(۲۳)فردوسی
(۲۴) اخلاق اسلامی، ص ۹۸ ۔ ۹۹ ، اخلاق الہٰی، ج۵ ،ص ۲۳۸
زند گی کے ہد ف و انجا م کی بنیا د پر اسلام کی نظر میں خو شی و سرو ر حدود و قیود رکھتے ہیں ، خو شی و سرور کے مضا مین ، دین اسلام کی بیا ن کر دہ اعلیٰ انسانی وتو حیدی فطر ت کے منافی و متضاد نہیں ہونے چا ہئیں ،کیونکہ جوچیز بھی انسا ن کو اس کے اصل مقصد وار ما ن سے دور کر دے اسلام اسے قبول نہیں کر سکتا، لہٰذا خوشی و سروراور اس کے عوامل ایک حد تک اسلام کے لئے قابل قبول ہیں اوروہ یہ کہ نہ صرف انسا ن کو اس کے اصلی مقصد تک پہنچنے سے مانع نہ ہوں بلکہ اس تک پہنچنے میں اس کے معاون بھی ہوں ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم مفکرین قائل ہیں کہ چو نکہ انسا ن اپنے اختیا ر طرز عمل میں کسی نہ کسی مقصد و ہد ف کے پیچھے ہو تا ہے (۲۴)،لہٰذا خو شی و سرور بھی اس قا عدہ سے مستشنیٰ نہیں ہو ں گے بلکہ اس میں کو ئی نہ کوئی ہد ف و مقصد سا منے ہو نا چاہیے، لہٰذا اگر اس کا مقصد حق ہو اور انسا ن کی زندگی کے اصل مقصد کے لئے ممد و معاون ہوتو یہ بھی مفید و حق ہو گا اورا گر اس کے سا منے کوئی باطل مقصد ہو جو کہ زند گی کے اصلی مقصد کے مقابل ہو تو پھر خوشی باطل و مضر ہوگی ، پس خوش کی حدو د اس کے ہد ف و مقصد کو قراردیا جا سکتا ہے ،مذا ق جو کہ خوشی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے اگر بے حیا ئی و بدتمیزی پر مشتمل ہو تو اسے ہزل کہتے ہیں جس کی اسلام مذمت کرتا ہے اور اگر کسی کی بدگوئی ہجو پر مشتمل ہو تو اسے ہجو کہتے ہیں اس سے بھی اسلام نے منع کیاہے۔ (۲۵)
اگر مذ اق حدسے تجا وز کر جا ئے اور بیہود گی کے زمر ے میں داخل ہو جا ئے ،تواس کی بھی اسلا م میں مذمت بیان ہو ئی ہے ، حضر ت امیر المو منینؑ فر ما تے ہیں :
’’ جو شخص زیادہ مزاح کرے اس کی شخصیت و وقا ر میں کمی واقع ہو جا تی ہے‘‘ (۲۶)
امام صا دق علیہ السلا م نے فر ما یا :
’’زیا دہ مز اح کر نا و جا ہت کو ختم کر دیتا ہے‘‘ (۲۷)
ہنسی اور تبسم بھی خو شی کے عوا مل میں سے ہے جو کہ دل سے ہونا چاہیے اور انسا ن کی شخصیت کو عیب دار نہ بنا دے ، ہنسی اسلام کی نظرمیں اس حد تک مفید و مؤثر ہے جب تک دوسروں کی شخصیت پر چو ٹ نہ پڑے ، اگرہنسی دوسروں کی تحقیر ،تو ہین اور اذیت کی خا طر ہو تو پھر مومن کی اذیت کے حکم میں داخل ہے اور حرا م و نا پسندیدہ ہے ، جب مو من کا احترام کعبہ سے بڑھ کر ہے تو واضح ہو جا ئے گا کہ اس کی اہا نت و اذیت کس حد تک ناپسندیدہ ہو گی ۔ (۲۸)
خو ش و سر ور کے و سا ئل وعوا مل بھی انسا ن کے مقا م و شا ن اور ارما نوں کی طرح بلند ہو نے چاہئیں ، کیونکہ ہو سکتا ہے مفید بات برے اند از میں پیش کر نے سے اس کا الٹا
(۲۵) ایک صحا بی نے رسو ل ؐ خدا سے پو چھا آپس میں ہنسی مذا ق میں کوئی اشکال ہے تو فر ما یا : اگر کوئی نامنا سب بات نہ ہو تو کوئی ڈر نہیں ہے ( کافی، ج ۲ ،ص ۶۶۳ ، تحف العقو ل، ص ۳۲۳)
(۲۶) غرر الحکم، ص ۲۲۲
(۲۷) کافی، ج۲ ،ص ۶۶۵
(۲۸) اخلا ق الہٰی، ج۵ ،ص ۲۵۶۔۲۵۷
(۲۹) کافی، ج۲ ،ص ۶۶۴(۳۰) غررالحکم، ص ۲۲۲
خو ش و سر ور کے و سا ئل وعوا مل بھی انسا ن کے مقا م و شا ن اور ارما نوں کی طرح بلند ہو نے چاہئیں ، کیونکہ ہو سکتا ہے مفید بات برے اند از میں پیش کر نے سے اس کا الٹا اثرحاصل ہو، اسی وجہ سے قہقہہ کورو ایات میں شیطا ن کی طرف سے شما ر کیا گیا ہے(۲۹)اور تبسم کو بہتر ین ہنسی شمار کیا گیا ہے ۔(۳۰)
خوشی و سرو ر کا زما ن و مکا ن بھی اس کے منا سب ہونا چاہیے ورنہ بہت نا پسند یدہ و برا شمار ہوگا ، سوگوار ی میں یا مقدس جگہوں پر مزا ح و بذلہ گو ئی سخت بر ی بات ہے ۔(۳۱)
ہنسی کے مکا ن و زما ن کے بارے میں رسول ؐ خدا سے روایت وارد ہے کہ آپ نے فر ما یا:
’’جو شخص جنازے میں ہنسے خدا وند قیا مت کے دن سب کے سامنے اس کی تو ہین کر ے گا، اس کی دعا قبول نہیں کی جا ئے گی اور جو شخص قبر ستا ن میں ہنسے تو اس حال میں واپس آئے گا کہ بزرگی کا بوجھ اس پر کوہ احد کی طرح بھا ری ہوگا ‘‘(۳۲)
جو کچھ ہم نے یہاں ذکر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جن بعض رو ایات میں خوشی یا اس کے عوامل کی بطو ر مطلق یا مقید مذمت کی گئی ہے ان سے مراد خوشی اور اس کے عوامل ہیں جواسلام کی مقرر کر دہ حدو د سے خا ر ج ہو جائیں اورافرا ط و تفریط کی حدو د میں داخل ہو جائیں ، اصل خو شی کی اسلام مذمت نہیں کرتا بلکہ اس کی تا ئید کر تا ہے۔
۶)چند نکات
الف ) زند گی تعلقا ت بننے اور ٹو ٹنے ، خوشی وغم ، امیدو نا امید ی ، آسا ئش و مشقت سے پُر ہے ، جس کائنات میں ہم رہ رہے ہیں اس میں خوشی اورغم اکٹھے ہیں ، یہ ممکن نہیں ہے کہ مسلسل زندگی میں خو شی رہے یا مسلسل غم رہے ، زندگی کے میدان میں بہت سی نامناسب و ناپسندیدہ باتوں اور حالات سے واسطہ پڑ تا ہے شاعر رو دکی کے بقو ل :
خدایِ عرش ، جہان راچنین نھا د نھا د
کہ گاہ مردم ، شادن وگہ بُود ناشاد
’’عر ش کے مالک خدا نے یہ کائنا ت بنا ئی ہی ایسی ہے کہ لوگ
(۳۱) اخلاق الہٰی ،ج۵، ص ۲۵۸۔۲۵۹
(۳۲) اخلاق الہٰی ،ج۵، ص ۲۵۸۔۲۵۹
’’عر ش کے مالک خدا نے یہ کائنا ت بنا ئی ہی ایسی ہے کہ لوگ کبھی خو ش اور کبھی غمگین ہوتے ہیں ‘‘
ب)جن بعض رو ایا ت میں مو من کو غمگین و محزون ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد اس کی اندرونی حالت ہے جو کہ اس کی اجتما عی و فر دی تعلق سے آگا ہی کی وجہ سے ہے نہ کہ مراد یہ ہے کہ مومن ظاہراً پر یشا ن ہوگا جو کہ خوشی و سرور کے منا فی ہو، اندرو نی غم دوسروں کے حالات اور انسانی ہمدر دی کی وجہ سے ہو تا ہے۔ (۳۳)
جیسا کہ سعد ی نے کہا ہے:
بنی آدم اعضا ی یک پیکرند
چوعضو ی بہ درد آورد روزگار
کہ در آفرینش زیک گو ھرند
دگر عضو ھا را نماند قر ار
’’انسا ن ایک جسم کے عضو ہیں ، چو نکہ خلقت میں ان کا اصلی جوہر ایک جیسا ہے ،جب ز مانے کی سختیا ں ایک عضو کو مصیبت ودرد میں مبتلا کردیں تو کسی عضو کو سکون نہیں رہتا ‘‘
ج)خوشی کے بعض عوامل جسمانی تا زگی کا با عث بنتے ہیں جو کہ با لو اسطہ انسا ن کی روح پر بھی اثرا ندا زہو تے ہیں اور بعض عوامل کا بلا واسطہ اثر روح پر پڑ تا ہے۔ تلا وت قرآن ، خدا کی مخلو قا ت میں غو و رفکر ، ایما ن اور اس کی تقویت ، صدقہ دینا اورگنا ہ سے بچنا ان عوامل میں سے ہیں جن سے روحانی خوشی و نشا ط حاصل ہو تی ہے اور مناسب کھانا ، ورزش ، خوشبو ، بننا سنو ر نا ، خو ش رنگ لبا س پہننا ، پید ل چلنا اور سبزے کو دیکھنا ان عوامل میں سے ہیں جو مادی و جسمانی نشا ط و تا ز گی کا ما حول پیدا کر تے ہیں ، اگر چہ جسمانی تا زگی سے روح کو بھی با لید گی حاصل ہو تی ہے۔
د)بعض مسلما ن عر فا ء باطن پر نظر رکھتے ہیں وہ انسا ن کی روح کے اندر خوشی وتا زگی کو تلاش کرتے ہیں اور محبو ب کے ساتھ وصا ل کی خوشی کو جسمانی وظا ہر ی خوشی سے بڑ ھ کر سمجھتے ہیں ، راہ عرفا ن کے سلو ک کر نے والے غم و اند وہ ، کو عر فا نی تجر بوں میں ایک مقام و
(۳۳) اصول کافی، ج۲ ،ص ۱۶۳ ،وسائل الشیعہ ، ج۲۰، ص ۲۱۳
د)بعض مسلما ن عر فا ء باطن پر نظر رکھتے ہیں وہ انسا ن کی روح کے اندر خوشی وتا زگی کو تلاش کرتے ہیں اور محبو ب کے ساتھ وصا ل کی خوشی کو جسمانی وظا ہر ی خوشی سے بڑ ھ کر سمجھتے ہیں ، راہ عرفا ن کے سلو ک کر نے والے غم و اند وہ ، کو عر فا نی تجر بوں میں ایک مقام و منزلت سمجھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اپنی خوشی کو کبھی اس غم پر قربا ن کر دیتے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ غم کے ذریعے خوشی کو پا یا جا سکتا ہے۔
کہ را دیدی تو ان در جملہ عالم
کہ یک دم شادما نی یافت بی غم۔(۳۴)
’’ان کی نظر میں اس دنیا کی خو شیاں خود دنیا کی طرح کسی کا م کی نہیں ہیں اور ہمیشہ غم کے ہمرا ہ ہوتی ہیں ‘‘
شادی بی غم درین با زار نیست
راہ لذت از درن است نز برون
گنج بی ما ر و گل بی خار نیست
ابلھی دان جستن از قصر و حصون (۳۵)
عا ر ف چو نکہ مکتب عشق کا پیر و کا ر ہو تا ہے وہ معتقد ہے کہ وہ جو حقیقی زندگی وخو شی خلق کرتا ہے وہ پاک عشق ہے۔
مرہ بد م ، زندہ شدم ، گریہ بدم ، خند م شدم
از تو ام ای شھر قمر، در من و در خو دبنگر
دولت عشق آمد و من ، دولت پا یند ہ شدم
کز اثر خندہ تو ، گلشن خندہ شدم(۳۶)
’’میں مر دہ تھا زند ہ ہو ا ، رو ر ہا تھا ، ہنسنے لگا ، عشق کی دولت آگئی تو میں دولت مند ہو گیا، اے شہر قمر میں تجھ سے ہوں مجھ میں اور اپنے پر نظر کر کہ تیر ے ہنسنے سے میں ہنسی و خو شی کا گلشن ہو گیا‘‘
اہم با ت یہ ہے کہ عارف بھی مطلق و کا مل خو شی کی تلا ش میں ہے، وہ اپنے ظر ف کے مطابق حقیقی خوشی پانے کے لئے غم کوخو ش دلی سے قبو ل کر تا ہے لیکن کبھی بھی دوسر وں کے لئے غم کی آرزو نہیں کر تا، اس کے علا وہ غم کی حالت میں مکمل محتا ط ہے کہ دوسرے ان کے اندرونی غم و حز ن سے واقف نہ ہو جائیں ـ۔(۳۷)